کر دیتے ہیں۔ یہ نری جہالت ہے اور یہ ان لوگوں کا طریقہ ہے کہ جو محدثین کی آراء اور علم حدیث کے اصول سے واقف نہیں اور نہ ان کے اس طریقے سے عقیدہ اہل سنت کی کوئی خدمت ہوتی ہے۔ اﷲ تبارک وتعالیٰ جہل وضلال وعناد سے ہر مسلمان کو محفوظ رکھے۔آمین!
امام نووی نے تقریب میں لکھا ہے کہ:’’وقیل یحتج بہ ان لم یکن داعیۃ الی بدعۃ ولا یحتج بہ ان کان داعیۃ وھذا ھوا الاظھر الاعدل وقول الکثیر بل الاکثر وضعف الاول باحتجاج صاحبی الصحیحین وغیر ھما بکثیر من المبتدعۃ غیر الدعاۃ (تقریب النووی ص۳۲۵ج۱)‘‘
اس عبارت کا بھی مطلب وہی ہے کہ اہل بدعت کی روایت مطلقاً رد نہیں کی جائے گی بلکہ کچھ شروط کے ساتھ قبول ہوگی۔
۶… امام سیوطیؒ
آپ اپنی کتاب ’’جمع الجوامع‘‘ اورجامع صغیر وغیرہ میں ظہور مہدی کی احادیث کا ذکر کیا ہے۔ بلکہ اس موضوع پر مستقل رسالہ بھی لکھا ہے۔ جس میں مہدی کے متعلق سب احادیث کو جمع کیا ہے اوراس عقیدے کے اثبات پر زوردیا ہے۔ملاحظہ ہو (الحاوی جلد ثانی )جو علامہ سیوطیؒ کے رسائل کامجموعہ ہے۔
۷… اورعلامہ سیوطیؒ کی کتاب جمع الجوامع کی تبویب جب علامہ علاؤ الدین علی المتقی نے کی تو انہوں نے ’’المھدی علیہ السلام ‘‘کا مستقل باب قائم کیا اوراس کے تحت تقریباً تیس روایتیں اس کے ثبوت میں پیش کیں۔(ملاحظہ ہو کنزالعمال ص۵۸۴تا ۵۹۹ج۱۴)
اسی طرح منتخب کنز العمال میں بھی المہدی کاعنوان قائم کیا اوراس کے تحت بھی احادیث ذکر کیں۔(منتخب کنز العمال برھامش مسند احمد از ص۲۹تا۳۷ج۶)
۸… اسی طرح امام احمد بن حنبل ؒ نے اپنی مسند میں خروج مہدی کے متعلق مختلف احادیث کونقل کیا ہے۔ جس سے ان کے اعتقاد پر استدلال کیا جا سکتا ہے۔جیسے کہ مسند احمدکی حدیثیں پہلے باب میں ہم نقل کر چکے ہیں اور یہ کہ وہ حدیثیں کم از کم حسن کے درجہ کی ہیں۔ کیونکہ سیوطیؒ کا قول علامہ علی متقی کے حوالہ سے ہم پہلے نقل کر چکے ہیں کہ مسنداحمد کی حدیثیں کم از کم حسن کے درجہ کی ضرور ہیں اورعام طور پر محدثین نے ابن جوزی کے اس دعوے کو تسلیم نہیں کیا ہے کہ مسند احمد میں موضوع حدیثیں بھی ہیں۔ ابن حجرؒ کا ’’القول المسدد‘‘ اس پر دال ہے۔