۵… الامام الحافظ ابوعبداﷲ الحاکم النیسابوریؒ
آپ نے بھی اپنی کتاب ’’مستدرک حاکم‘‘ میں ظہور مہدی کے متعلق بہت سے روایتیں نقل کی ہیں۔ ملاحظہ ہو (مستدرک حاکم ص۶۵۸،۶۵۷،ج۵)اس سے ان کے عقیدہ کا اظہار ہوتا ہے کہ حاکم بھی عقیدہ ظہور مہدی کے قائل تھے۔ اس لئے انہوں نے ان احادیث کی تخریج اپنی کتاب میں کی ہے۔
حاکم کے متعلق بعض لوگ یہ اعتراض کرتے ہیں کہ وہ شیعہ تھے۔لہٰذا ان کی روایتیں قابل اعتبار نہیں۔ لیکن یہ بات غلط ہے۔ اس لئے کہ حاکم کے زمانہ سے لے کر اب تک محدثین ان کی احادیث کا اعتبار کرتے رہے ہیں۔ البتہ مستدرک حاکم کی احادیث سب کی سب ایک مرتبہ کی نہیں۔ بلکہ ہر قسم کی حدیثیں موجود ہیں۔ لہٰذا وہ احادیث قابل اعتبار ہوں گی جن کی تصیح پر حاکم کے ساتھ ذہبی بھی تلخیص المستدرک میں متفق ہوں:’’کماقال الشاہ عبدالعزیز محدث دہلوی ولہٰذا علماء حدیث قرار دادہ اندکہ برمستدرک حاکم اعتماد بنا یدکرد مگر بعد از تلخیص ذہبی(بستان المحدثین ص۱۱۳)‘‘
دوسری بات یہ کہ مطلق تشیع کسی راوی کی رد حدیث کے لئے کافی نہیں ہے۔جیسے کہ ابان بن تعلب کے ترجمہ میں علامہ ذہبی نے لکھا ہے کہ :’’الکوفی شیعی جلد ولکنہ صدوق فلنا صدقہ علیہ بدعتہ وقد وثقہ احمد بن حنبل یحییٰ معین وابوحاتم واوردہ ابن عدل وقال کان غالیا فی التشیع وقال السعدی زائع ماجاہر فلقائل ان یقول کیف ساغ توثیق مبتدع وحد الثقۃ العدالۃ والا تقان فکیف یکون عدلا من ھو صاحب بدعۃ وجوابہ ان البدعۃ علی ضربین فبدعۃ صغریٰ کفلو التشیع اوکالتشیع بلا غلو ولا تحرف فھذا کثیر فی التابعین وتابعیھم مع الدین والورع والصدق فلورد حدیث ھولاء لذہب جملۃ من الاثار النبویۃ وھذہ مفسدۃ بینہ…الخ (میزان الاعتدال ص۱۱۸) ‘‘
اس عبارت سے واضح ہوا کہ مطلق تشیع ردروایت کے لئے کافی نہیں ہے۔ جیسے کہ بعض لوگوں کا طریقہ ہے کہ جہاں کسی راوی کے ترجمہ میں دیکھا کہ یہ شیعہ ہے تو اس کی روایت کورد کر