حجرؒ نے ان کے متعلق لکھا ہے :’’ثقہ‘‘(تقریب التہذیب ج۱ص۱۵۳) یعنی قابل اعتماد ہیں۔ اسی طرح خلاصہ للخزرجی میں ان کی توثیق منقول ہے۔(۱۰۳) اسی طرح تقریب التہذیب میں حافظ ابن حجرؒ نے لکھا کہ یحییٰ بن معین ،نسائی، امام احمد وغیرہ نے توثیق کی ہے۔ (حاشیہ خلاصہ للخزرجی ص۱۰۳)
اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ روایت صرف سالم بن ابی الجعد سے نہیں ہے۔بلکہ اس کا متابع مستدرک کی روایت میں موجو د ہے۔واﷲ اعلم بالصواب !
۴۴… ’’سیکون بعدی خلفاء ومن بعد الخلفاء امراء ومن بعد الامراء ملوک ومن بعد الملوک جبابرۃ ثم یخرج رجل من اھل بیتی یملأ الارض قسطا وعدلا کما ملئت جوراثم یؤمر بعدہ القحطان فوالذی بعثنی بالحق ماھر بدونہ (کنز العمال ج۱۴ص۲۶۵،باب خروج المہدی،حدیث نمبر۳۸۶۶۷)‘‘
{یعنی نبی کریمﷺ نے فرمایا کہ میرے بعد خلفاء ہوں گے ۔پھر ان کے بعد امیر ہوں گے۔پھران کے بعد بادشاہ ہوں گے۔ پھر ان کے بعدجابربادشاہ ہوں گے۔پھر میرے اہل میں سے ایک آدمی نکلے گا وہ زمین کوعدل سے بھردے گا۔جیسے وہ ظلم سے بھر چکی ہوگی۔ ان کے بعد قحطانی امیرہوںگے ۔وہ عدل میں ان سے کم نہیں ہوںگے۔
اس روایت میں بھی ’’رجل من اھل بیتی‘‘سے مراد مہدی ہیں۔ مصنف کا اس کو مہدی کے باب میں نقل کرنا اس کی دلیل ہے۔ نیز یہ روایت قابل اعتبار ہے ۔کیونکہ اس روایت کو طبرانی کبیر کے حوالے سے نقل کیا ہے اورمصنف کے حوالے سے پہلے ہم نقل کر چکے ہیں۔ چونکہ طبرانی کی روایت اگر ضعیف ہوتی ہو تو وہ اس پر تنبیہ کرتے ہیں۔ لیکن اس روایت کے بعد کوئی تنبیہ نہیں کی ہے۔جو اس بات کی دلیل ہے کہ یہ روایت ان کے نزدیک قابل اعتبار ہے۔
۴۵… ’’اللھم انصر العباس وولد العباس ثلاثا یاعم اماعلمت ان المھدی من ولدک مرفقا رضیا مرضیا (منتخب کنزالعمال ص۳۱ج۶)‘‘{نبی کریمﷺ نے حضرت عباسؓ سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا :اے چچا! کیا آپ نہیں جانتے کہ مہدی آپ کی اولاد میں سے ہوگا۔}
اس روایت کے متعلق صاحب منتخب نے آخر میں لکھا کہ ’’رجال سندہ ثقات (ص۳۱ج۶)‘‘یعنی اس حدیث کی سند کے راوی ثقہ ہیں۔