’’صدوق قلیل الحدیث زاہد (ج۲ص۵۹۶)‘‘یعنی سچے اور زاہد ہیں اور بہت کم حدیث نقل کرتے ہیں۔ خلاصہ تذہیب تہذیب الکمال میں خزرجی نے ان کے متعلق لکھا ہے کہ :’’وثقۃ ابو حاتم (ص۳۸۳)‘‘یعنی ابو حاتم نے ان کو قابل اعتماد کہا ہے۔نیز یہ کہ امام بخاریؒ نے بھی ان سے تعلیقا صحیح البخاری میں روایت لی ہے اورمسلم اورسنن اربعہ کے راوی ہیں۔
۴… ابوالصدیق الناجی:ان کا نام بکر بن عمر وہے اور یہ سنن اربعہ یعنی ابوداؤد ، ترمذی، نسائی اورابن ماجہ کے راوی ہیں۔ حافظ ابن حجرؒ نے تقریب التہذیب میں ان کی توثیق کی ہے۔ (تقریب التہذیب ج۱ص۷۴) مذکورہ تفصیل سے معلوم ہوا کہ یہ روایت بھی قابل اعتماد اورصحیح ہے۔
۴۳… ’’اذارأیتم الرایات السود قد جاء ت من قبل خراسان فائتو ھا فان فیھا خلیفۃ اﷲ المھدی (منتخب کنزالعمال ص۲۹ج۶،علی ہامش مسند احمد)‘‘
یعنی جب تم کالے جھنڈے دیکھ لو کہ خراسان کی طرف سے آئے تو اس کی طرف چلے جاؤ ۔اس لئے کہ اس میں خدا کے خلیفہ مہدی ہوںگے۔
اس روایت کو صاحب منتخب نے مسند احمد اورمستدرک حاکم کے حوالہ سے نقل کیا ہے اورمستدرک حاکم ،بخاری، مسلم،صحیح ابن حبان اورمختارہ ضیاء مقدسی کے متعلق مصنف نے امام سیوطی کا یہ قول نقل کیا ہے کہ:’’مافی الکتب الخمسہ خ م حب ک ض صحیح فالعزواالیھا معلم بالصحہ سوی مافی المستدرک من المتعقب فانبہ علیہ (منتخب کنزل العمال ص۹ج۱،علی ھامش مسند احمد ج۱)‘‘
یعنی بخاری، مسلم، صحیح ابن حبان،مستدرک اورضیاء مقدسی کے مختارہ سے جب ہم روایت نقل کریں گے اور ان کتابوں کی طرف منسوب کریں گے ۔ تو یہ اس روایت کی صحت کی علامت ہے۔ ہاں مستدرک کی وہ روایات جن پر جرح ہے۔اس پر تنبیہ کروں گا اوراس روایت پر کوئی تنبیہ نہیں کی گئی ہے۔ تو معلوم ہوا کہ یہ روایت قابل اعتبار ہے۔نیز یہ روایت مسند احمد میں صحیح سند کے ساتھ مروی ہے:’’حدثنا وکیع عن الاعمش عن سالم عن ثوبان قال قال رسول اﷲ اذارأیتم رایات السودقد جاء ت من قبل خراسان فائتو ھافان فیھا خلیفۃ اﷲ المھدی (ص۲۷۷ج۵)‘‘ اس روایت کے راوی سب ثقہ ہیں۔ تفصیل درج ذیل ہے: