ہوئے تو ہم نے پوچھا کہ آج آپؐ نے ایسا کام کیا جو آپؐ نے اس سے پہلے کبھی نہیں کیاتھا۔ فرمایا :ہاں تعجب ہے کہ میری امت میں سے کچھ لوگ قریش کے ایک آدمی کو قتل کرنے کے لئے بیت اﷲ کا قصد کریں گے جبکہ اس نے بیت اﷲ میں پناہ لی ہوگی۔ یہاں تک یہ لشکر جب بیداء تک پہنچے گا تو زمین میں دھنس جائے گا۔}
اب اس حدیث میں رجل من قریش سے مراد مہدی ہیں۔ اس لئے کہ عبداﷲ بن زبیر سے لڑنے کے لئے لشکر تھا وہ تو زمین میں نہیں دھنسا تھا۔ تاریخ اس کی گواہ ہے۔نیز لشکر کی یہ صفات ان احادیث میں مروی ہیں ۔ جس میں مہدی کے نام کی صراحت بھی ہے اوران احادیث کی محدثین نے خروج مہدی کے ابواب میں نقل بھی کیا ہے۔ تو معلوم ہوا کہ قریش کے اس آدمی سے مراد مہدی ہیں۔ واﷲ اعلم بالصواب!
۳۷… ’’حدثنا زھیر بن حرب وعلی بن حجر واللفظ لزھیر قالا حدثنا اسماعیل بن ابراہیم عن الجریری عن ابی نضرۃ قال کنا عند جابر بن عبداﷲ فقال یوشک اھل العراق ان لایجی ء الیھم ففزولا درھم قلنا من این ذاک قال من قبل العجم یمنعون ذاک ثم قال یوشک اھل الشام ان لایجیی الیھم دینار ولامدی قلنا من این ذاک قال من قبل الروم ثم سکت ھینۃ ثم قال قال رسول اﷲ ﷺ یکون فی اخرامتی خلیفۃ یحثی المال حثیا ولا یعدہ عدا قال قلت لابی نضرۃ وابی العلاء اتریان انہ عمر بن عبدالعزیز فقال لا (صحیح مسلم ص۳۹۵ج۲،کتاب الفتن)‘‘
{یعنی حضرت بابر ؓ فرماتے ہیں ،قریب ہے کہ اہل عراق کے پاس نہ درہم و دینارآئیں گے نہ کچھ غلہ،کسی نے پوچھا کہ یہ مصیبت کس کی طرف آئے گی۔ کہا کہ عجم کی طرف سے ،پھر فرمایا کہ قریب ہے کہ اہل شام کی بھی یہی حالت ہو گی،تو کسی نے پوچھا کہ یہ کس کی طرف سے؟کہا کہ اہل روم کی طرف سے۔پھر فرمایا کہ رسول اﷲﷺ نے فرمایا کہ میری امت میں آکر ایک خلیفہ ہوگا جو مال کو بغیر گنے تقسیم کرے گا۔جریدی کہتے ہیں کہ میں نے ابونضرہ اورابوالعلاء سے پوچھا کہ کیا اس خلیفہ سے مراد عمر بن عبدالعزیز ہیں توفرمایا نہیں۔}
اس حدیث میں خلیفہ سے محدثین کی تصریحات کے مطابق مہدی مرادہیں۔ کیونکہ اس