مطلب یہ کہ مہدی اہل بیت میں سے ہوگا۔ کھلی پیشانی اورسیدھی باریک ناک والا، زمین کوعدل سے بھر دے گا۔
اسی طرح امام ذہبیؒ نے بھی اس حدیث کو صحیح علی شرط مسلم تسلیم کیاہے۔
۲۵… ’’اخبرونی ابوالنضر الفقیہ حدثنا عثمان بن سعید الدارمی حدثنا عبداﷲ بن صالح ابناء انا ابوالملیح الرقی حدثنی زیاد بن بیان وذکر من فضلہ قال سمعت سعید بن المسیب یقول سمعت ام سلمۃ تقول سمعت النبی ایذکر المھدی فقال نعم ھو حق وھو من نبی فاطمہ(مستدرک حاکم ج۵ص۷۷۱،حدیث نمبر۸۷۱۴)‘‘
یہ حدیث بھی صحیح ہے۔امام ذہنیؒ نے اس پر کوئی جرح نہیں کی ہے۔یعنی مہدی کا ظہور حق ہے اوروہ بنی فاطمہ میں سے ہوگا۔
مستدرک حاکم کی یہ سب حدیثیں صحیح ہیں۔ جو صراحۃً خروج مہدی پردلالت کرتی ہیں۔ عام طور پر لوگ حاکم کی تصیح کا اعتبار نہیں کرتے ہیں۔لیکن یہ قاعدہ تو محدثین کے نزدیک مشہور ہے کہ ذہنی اورحاکم جب کسی حدیث کی تصحیح پر متفق ہو جائیں تو وہ محدثین کے نزدیک یقینا صحیح ہوتی ہے۔ جیسے کہ مولانا تقی عثمانی کی درس ترمذی میں اس کی صراحت موجود ہے۔
(درس ترمذی ص۵۲، ۵۳،ج۱)
اسی طرح حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلویؒ نے بستان المحدثین میں فرمایا:’’ذہبی گفتہ است کہ حلال نیست کسی راکہ برتصحیح حاکم غرہ شو تاوقتیکہ تعقبات وتلحیقات مرانہ بینذ‘‘ (ص۱۰۹،۱۱۰)
یعنی ذہبی نے کہا ہے کہ جب تک میری گرفت اوربحث نہ دیکھی جائے ۔حاکم کی تصحیح پر مغرور نہ ہونا چاہئے۔ یعنی دونوں کا قول جب متفق ہو جاتا ہے۔توپھر وہ حدیث صحیح ہو تی ہے۔
مذکورہ احادیث میں کچھ توصحیح ہیں اورکچھ درجہ حسن کی ہیں۔ ضعیف کوئی بھی نہیں۔ لیکن اگرضعیف ہوبھی تو بھی تعددطرق کی وجہ سے صحیح ہوجاتی ہے۔جیسے حافظ ابن حجرؒ نے فرمایا ہے : ’’وبکثرۃ طرقہ یصحح‘‘ (شرح نخبہ ص۳۵){یعنی کثرت طرق کی وجہ سے حدیث درجہ صحت تک پہنچتی ہے۔}