۲… سعد بن عبدالحمید بن جعفر:حافظ نے لکھا ہے کہ ثقہ اورصادق تھے۔ (تقریب ص۱۹۹)یہ ابوداؤد اورابن ماجہ کے راوی ہیں اورضعیف ہیں۔لیکن دوسرے شواہد کی وجہ سے روایت بہر حال قابل اعتبار ہے۔
۳… عکرمہ بن عمار: حافظ نے لکھا ’’صدوق‘‘یعنی صادق اورسچے تھے۔(تقریب ج۱ص۴۰۸) نسائی ابن ماجہ کے راوی ہیں۔ نیز بخاری نے بھی ان سے تعلیقاً روایت نقل کی ہے۔ ’’کما صرح بہ الحافظ ج۱ص۴۰۸تقریب التہذیب ‘‘
۴… اسحاق بن عبداﷲ بن ابی طلحہ: یہ بھی ثقہ ہیں ۔ جیسے کہ حافظ ابن حجرؒ نے تقریب میں لکھا ہے۔ (ثقہ حجۃ ج۱ص۴۴)اس تفصیل سے بھی معلوم ہوا کہ یہ روایت بھی قابل اعتبار ہے۔
۱۹… ’’حدثنا حرملۃ بن یحییٰ المصری وابراہیم بن سعید الجوھری قالا حدثنا ابوصالح عبدالغفار بن داؤد الحرانی قال حدثنا ابن لھیعہ عن ابی زرعہ عمرو بن جابر الحضر می عن عبداﷲ بن الحارث بن جزء الزبیدی قال قال رسول اﷲ ﷺ یخرج ناس من المشرق فیؤطون المھدی یعنی سلطانہ (سنن ابن ماجہ ص۳۰۰،باب خروج المھدی)‘‘{یعنی مشرق کی طرف سے لوگ نکلیں گے اورمہدی کی تائید کر کے ان کی حکومت قائم کریں گے۔}
یہ حدیث بھی قابل اعتبار ہے ۔کیونکہ کسی نے اس کو موضوع نہیں کہاہے۔ رواۃ کی تفصیل یہ ہے:
۱… حرملۃ بن یحییٰ بن حرملۃ:حافظ نے لکھا ہے ’’صدوق‘‘(تقریب ج۱ص۱۱۰)مسلم ، نسائی، ابن ماجہ کے راویوں میں سے ہیں۔
۲… ابراہیم بن سعیدالجوہری:حافظ نے تقریب میں لکھا ہے ’’حافظ ثقۃ تکلم فیہ بلاحجۃ‘‘(ج۱ص۲۸)یعنی ثقہ اورحافظ ہیں ۔ جن لوگوں نے جرح کی ہے ۔بلاحجت ہے۔
۳… عبدالغفار بن داؤد الحرانی ابوصالح: حافظ نے لکھا ہے ’’ثقۃ فقیہ‘‘بخاری، ابوداؤد، نسائی اورابن ماجہ کے راوی ہیں۔ (تقریب التہذیب ج۱ص۳۶۲)
۴… ابن لھیعہ :عبداﷲ بن لھیعہ ان کانام ہے۔مسلم،ابوداؤد،ترمذی اورابن ماجہ کے راوی ہیں۔ اگرچہ یہ کتابیں جل جانے کے بعد ان کی روایتوں میں خلط آیا لیکن کذاب نہیں ہیں۔ خصوصاً