سب کے نزدیک قابل اعتبار ہیں۔
۲… محمد بنمروان العقیلی:ان کے متعلق حافظ ابن حجرؒ نے فرمایا:’’صدوق‘‘(تقریب التہذیب ج۲ص۵۵۱) اوران پر ق کی علامت بنائی ہے۔ یعنی ابن ماجہ کے راوی ہیں۔
۳… عمارۃ بن ابی حفصہ:ان کے متعلق حافظ ابن حجرؒ نے فرمایا’’ثقہ‘‘(کتاب التہذیب ج۱ ص۴۲۳) یعنی ثقہ ہے۔ نیز ان پرخ اورع کی علامتیں بنائی ہیں۔ یعنی بخاری، ترمذی،نسائی، ابن ماجہ اور ابوداؤد کے راوی ہیں۔
۴… زید العلمی:ان کے متعلق اگرچہ حافظ نے ضعیف لکھا ہے۔لیکن طبقہ خامسہ کے راوی ہیں۔ جن کی احادیث مقبول ہیں۔ نیز یہ متابعات کی وجہ سے ضعف مخیر ہوگیا ہے۔ نیز ان پر حافظ ابن حجرؒ نے ع کی علامت بنائی ہے۔ جو اس کی علامت ہے کہ یہ صحاح ستہ کے راوی ہیں اور سب کے نزدیک قابل اعتبار ہیں۔
۵… ابوالصدیق الناجی:ان کا نام بکر بن عمرو ہے اورحافظ ابن حجرؒ نے ان کے متعلق
( تقریب التہذیب ص۷۴ج۱)میں لکھا ہے :’’ثقۃ‘‘نیز ان کے نام پر ع کی علامت لکھی ہے۔ یعنی صحاح ستہ کے راوی ہیں۔ اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ یہ روایت بھی قابل اعتبار ہے۔ روایت کے راویوں کے ثقہ ہونے کی وجہ سے اگرچہ ہم اس روایت کی صحت کا جزم نہیں کر سکتے کیونکہ بقول محدث العصر حضرت علامہ محمد یوسف بنوریؒ ہم اس منصب کے اہل نہیں:’’کما قال فی تقریظہ علی ولایت علی للعل شاہ بخاری‘‘لیکن کم از کم اتنا کہہ سکتے ہیں کہ یہ روایت بہر حال موضوع یا ضعیف نہیں۔بلکہ محدیثین کے نزدیک قابل اعتبار ہے۔
۱۵… ابن ماجہ میں حضرت ثوبان کی حدیث ان الفاظ کے ساتھ مروی ہے:
’’حدثنا محمد بن یحییٰ واحمد بن یوسف قالا حدثنا عبدالرزاق عن سفیان الثوری عن خالد الخذاء عن ابی قلابۃ عن ابی اسماء الرحبی عن ثوبانؓ قال قال رسول اﷲﷺ یقتل عند کنزکم ثلاثۃ کلھمابن خلیفۃ ثم لایصیر الی واحد منھم ثم تطلع الرایات السود من قبل المشرق فیقتلونکم قتلالم یقتلہ قوم ثم ذکر شیئا لا احفظہ فقال فاذا رأیتموہ فبایعوہ ولوحبوا علی الثلج فانہ خلیفۃ اﷲ المھدی(سنن ابن ماجہ ص۳۳۰، باب خروج