’’حدثنا ابراہیم بن عبداﷲ بن المنذر الباھلی حدثنا یعلی بن عبید قال قال لناسفیان الثوری اتقو الکلبی فقیل لہ فانک تروی عنہ قال انا اعرف صدقہ من کذبہ(ترمذی ج۲ص۲۳۴،کتاب العلل) ‘‘{سفیان ثوریؒ نے کہا کہ کلبی سے بچو کسی نے ان سے کہا کہ آپ جو کلبی سے نقل کرتے ہیں؟ توانہوں نے فرمایا کہ میں اس کے سچ اورجھوٹ کو پہچانتا ہوں۔
اس کے باقی راوی ثقہ ہیں۔ عبید بن اسباط کے متعلق حافظ ابن حجرؒ نے تقریب التہذیب میں فرمایا ہے کہ:’’صدوق(ج۱ص۳۸۲)‘‘
سفیان ثوریؒ تو مشہور امام اورمتفق علیہ ثقہ ہیں۔ ایک راوی عاصم بن بھدلہ ہے ۔ جس کی توثیق حافظ ابن حجر ؒ نے (تقریب ص۱۵۸ )میں کی ہے۔ نیز یہ طبقہ سادسہ کے راویوں میں سے ہے۔ جن کے متعلق حافظ ابن حجرؒ نے فرمایا ہے:’’ولم یثبت فیہ مایترک حدیثہ من اجلہ والیہ الاشارۃ بلفظ مقبول (تقریب التہذیب ص۱۰)‘‘
نیز یہ صحیحین کے بھی راوی ہیں۔(تقریب التہذیب ج۱ص۲۶۶)نیز ان پر حافظ ابن حجرؒ نے صفحہ مذکورہ میں (ع) کی علامت لگائی ہے۔تو یہ صحاح ستہ کے متفق علیہ راوی ہیں۔’’کما صرح بہ الحافظ فی التقریب ج۱ص۲۶۶‘‘
ایک راوی اس میں زر ہے۔جس کی توثیق حافظ ابن حجرؒ نے ’’ثقہ جلیل‘‘ کے الفاظ سے کی ہے اور اس پر بھی (ع) کی علامت بنائی ہے۔
۱۱… امام ترمذیؒ نے عاصم بن بھدلہ کی سند سے ایک دوسری روایت حضرت ابوہریرہؓ سے نقل کی ہے۔ یہ روایت اگرچہ موقوف ہے۔لیکن محدثین کے ہاں یہ قاعدہ مشہور ہے کہ موقوف روایت بھی ایسے مسئلے میں جو مدرک بالقیاس نہ ہو مرفوع کے حکم میں ہے۔ روایت یہ ہے:
’’عن ابی ھریرۃؓ قال لولم یبق من الدنیا الایوم لطول اﷲ ذالک الیوم حتی یلی، ھذا حدیث حسن صحیح (ترمذی ص۴۷ج۲،باب خروج المہدی)‘‘{یعنی اگر دنیا کا ایک ہی دن باقی ہو تو بھی اﷲ تعالیٰ اس دن کو لمبا کردیںگے۔یہاں تک کہ مہدی والی بنے۔}
اس حدیث کو بھی امام ترمذیؒ نے حسن اورصحیح کہا ہے۔