اس کے بعد وفات پاجائیں گے اورمسلمان ان پر نماز جنازہ پڑھیں گے۔}
اس روایت میںاگرچہ ایک راوی مجہول ہے ۔لیکن یہی روایت مستدرک حاکم میں متصل سند سے مذکور ہے۔اگرچہ اس کے الفاظ کچھ مختلف ہیں۔ (مستدرک حاکم ص۴۲۹ج۴)
اس طرح علامہ ذہبی نے تلخیص المستدرک میں اس کی تصیح کی ہے۔
(ملاحظہ ہو تلخیص المستدرک للذہبی ص۴۲۹ج۴،بذیل المستدرک)
اسی طرح اس روایت کی تائید حضرت ابوہریرہؓ کی اس روایت سے بھی ہوتی ہے ۔ جس کی صحت پر ابوعبداﷲ حاکم اور علامہ ذہبی دونوں متفق ہیں اورروایت بخاری ومسلم کی شرط پر ہے جس کو ہم آگے نقل کریں گے۔ (مستدرک حاکم ص۵۲۰ج۴)
۸… حضرت ام سلمہ ؓ کی ایک اورروایت جو ابوداؤد میں ان ہی الفاظ سے مروی ہے۔
(ص۱۳۱،ج۲،کتاب المہدی)
۹… حضرت ام سلمہؓ کی ایک اور روایت جوابوداؤد میں (ص۱۳۱ج۲،کتاب المہدی ) مروی ہے۔
۱۰… اسی طرح سنن ترمذی میں امام ترمذی نے حضرت عبداﷲ بن مسعودؓ کی روایت نقل کی ہے ۔جس کو ہم پہلے جمع الفوائد کے حوالے سے نقل کرچکے ہیں اوراس کے آخر میں امام ترمذیؒ نے فرمایا: ’’ھذاحدیث حسن صحیح (ص۴۷ج۲،باب خروج المہدی)‘‘ {حضرت عبداﷲ ابن مسعود ؓ کی یہ روایت صحیح ہے۔}
مذکورہ روایت میں ایک راوی ہے۔ جس کانام اسباط بن محمد ہے۔ وہ خود اگرچہ ثقہ ہے۔ لیکن سفیان بن ثوری سے جو روایت وہ نقل کرتے ہیں۔اس کے بارے میں محدثین نے اس کی تضعیف کی ہے۔ جیسے کہ تقریب التہذیب میں حافظ ابن حجرؒ نے لکھا ہے کہ اسباط بن محمد بن عبدالرحمن بن خالد بن میسرہ القرشی مولاھم ابومحمدثقہ ضعف فی الثوری۔ (تقریب ج۱ص۴۰)
لیکن ایک تو یہ کہ خود امام ترمذیؒ نے اس کی روایت کی توثیق کی ہے اورمحدثین جب کسی ایسے راوی سے حدیث نقل کرتے ہیں۔ جس کی جرح پر واقف ہوں تو وہ روایت ان کے نزدیک قابل اعتماد ہوتی ہے۔ اس لئے ہر راوی کی صدق اورکذب اورصحیح وضعیف روایتیں پہچانتے ہیں۔ جیسے کہ امام ترمذیؒ نے کتاب العلل میں سفیان بن ثوریؒ کا قول نقل کیاہے: