کتاب میں اگر ایسی روایت ہو کہ جس میں شدید قسم کاضعف ہو تومیں اس کو بیان کردیتا ہوں اورجس حدیث کے متعلق میں سکوت کروں تو وہ صالح ہوتی ہے۔(یعنی یا صحیح یاحسن اور اگرضعف ہوبھی تو ادنیٰ درجے کا ہوتاہے،جس کا جبیرہ ممکن ہوتاہے۔}
حافظ ابن صلاح ؒ فرماتے ہیں کہ امام ابوداؤدؒ کے اس قول کی بناء پر اگرکوئی حدیث مطلقاً یعنی بغیر کسی کلام کے منقول ہو ۔جبکہ وہ روایت بخاری ومسلم میں موجود نہ ہو اورکسی محدث نے اس کی صحت وحسن پر حکم لگایا ہو تو وہ روایت امام ابوداؤدؒ کے نزدیک درجہ حسن کی ضرور ہوتی ہے اور امام ابوداؤدؒ کا یہ قول ان الفاظ کے ساتھ بھی منقول ہے کہ:’’وماسکت عنہ فھوصالح۰‘‘(مقدمہ فتح الملہم ص۲۹ج۱){یعنی حدیث کے متعلق میں سکوت کروں تو وہ صالح ہوتی ہے اورصالح حدیث بھی صحیح ہو سکتی ہے اورحسن بھی۔ تواحتیاط یہ ہے کہ حسن ہی کاحکم اس پرلگایاجائے۔}
اورامام ابوداؤد کا یہ قول بھی کتابوں میں منقول ہے کہ: ’’ماذکرت فی کتابی حدیثا اجتمع الناس علی ترکہ‘‘(مقدمہ ابوداؤد ص۳){میں نے کوئی ایسی حدیث نقل نہیں کی ہے کہ جس کے ترک اورضعف پر محدثین کااتفاق ہو۔}
اورشاہ عبدالعزیز محدث دہلویؒ نے بستان المحدثین ص۲۸۵ میں فرمایا کہ:’’دروے التزام نمودہ است کہ حدیث صحیح باشد یاحسن‘‘{اس کتاب میں اس کا التزام ہے کہ حدیث صحیح ہویاحسن۔}
باقی تحقیق مقدمہ ابوداؤد مطبوعہ ایچ ایم سعید کمپنی ص۴،۵ ج۱ ،اورمقدمہ فتح الملہم ص۲۹ج۱ میں ملاحظہ ہو۔
اس پوری تفصیل سے یہ بات معلوم ہوئی کہ امام ابوداؤدؒ جس حدیث پرسکوت کریں وہ حدیث کم از کم حسن کے درجہ کی ہوتی ہے۔جیسے خروج مہدی کے مذکورہ حدیث پر انہوں نے سکوت کیا ہے۔ لہٰذا یہ حدیث کم از کم حسن کے درجہ کی ہے۔
۶… ابوداؤد نے حضرت سلمہ ؓ کی وہ روایت جو ہم نے نمبر۲میں نقل کی ہے۔اس سند کے ساتھ نقل کی ہے اوراس پرسکوت فرمایا ہے۔صرف علی بن نفیل کی توثیق کا قول ابوالملیح سے نقل کیا ہے: ’’حدثنا احمد بن ابراہیم قال حدثنی عبداﷲ بن جعفر الرقی قال حدثنا ابوالملیح الحسن بن عمر عن زیاد بن بیان عن علی بن نفیل عن