۵… اب دوسری کتابوں سے احادیث ملاحظہ ہوں۔
ابوداؤد میں حضرت علی ؓ کی ایک اورروایت ان الفاظ سے مروی ہے: ’’حدثنا عثمان بن ابی شیبۃ قال حدثنا الفضل بن دکین قال حدثنا قطر عن القاسم بن ابی بزۃ عن ابی الطفیل عن علی عن النبی ﷺ قال لولم یبق من الدھر الا یوم لبعث اﷲ رجل من اھل بیتی یملأھا عدلا کماملئت جورا (ابوداؤد ص۱۳۱،ج۲،کتاب المہدی)‘‘ {حضرت علی ؓ نقل کرتے ہیں کہ پیغمبرﷺ نے فرمایا کہ اگر زمانہ کا ایک دن بھی باقی ہوگا تواﷲ تعالیٰ ایک آدمی میرے اہل بیت سے پیدا فرمائیں گے جو زمین کو عدل وانصاف سے بھر دے گا۔جیسے کہ وہ ظلم سے بھر چکی ہوگی۔}
اس روایت پر امام ابوداؤد ؒ نے سکوت کیا ہے اورمحدثین کے ہاں وہ روایت جس پر امام ابوداؤد ؒ نے سکوت کیا۔کم از کم درجہ حسن کی ہوتی ہیں۔ جیسے مولانا محمدتقی عثمانی کی املائی تقریر درس ترمذی میں ہے کہ: ’’ان کی کتاب (ابوداؤد) میں حسن اورضعیف احادیث بھی آگئی ہیں۔ البتہ وہ ضعیف اورمضطرب احادیث پرکلام کرنے کے بھی عادی ہیں۔ بشرطیکہ ضعف زیادہ ہو۔ چنانچہ جس حدیث پر وہ سکوت کریں ۔تواس کامطلب یہ ہے کہ وہ حدیث ان کے نزدیک قابل استدلال ہے۔البتہ بعض مرتبہ اگرضعف ضعیف ہوتو وہ اسے نظرانداز کر دیتے ہیں اور اس پر کلام نہیں کرتے۔‘‘ (درس ترمذی ص۱۲۸ج۱)
اورخود امام ابوداؤد ؒ کا قول بھی کتابوں میں منقول ہے جیسے کہ حافظ ابن صلاح کا قول شیخ الاسلام علامہ شبیراحمدعثمانیؒنے مقدمہ فتح الملہم میں نقل کیاہے:
’’ومن مظانہ سنن ابی داؤد فقد روینا انہ قال ذکرت فیہ الصحیح ومایشبھہ ومایقاربہ وروینا عنہ ایضاً مامعناہ انہ یذکرفی کل باب اصح ماعرفہ فی ذالک الباب وقال ماکان فی کتابی حدیث فیہ وھن شدید فقد بیّنتہ ومالم اذکر فیہ شیئا فھو صالح وبعضھا اصح من بعض (مقدمہ فتح الملہم ص۲۹ج۱)‘‘ {امام ابوداؤدؒ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنی کتاب میں صحیح اوراس کے مشابہ اورصحیح کے قریب روایتیں نقل کی ہیں اور حافظ ابن صلاحؒ فرماتے ہیں کہ ہم نے ابوداؤدؒسے یہ الفاظ نقل کئے ہیں کہ وہ ہر باب میں اس باب کی صحیح روایتیں نقل کرتے ہیں اورفرمایا کہ میری