حکومت کے پاس اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا کہ وہ مسئلہ کی نزاکت کوسمجھتے ہوئے مجبوراًگھٹنے ٹیک دے۔ بالخصوص پنجاب کے عوام نے بھٹو صاحب کے ہوش اڑادیئے اور جہاں تک معلوم ہوا ہے یہ بھی ہوا کہ پولیس نے اس مسئلہ میں مدد سے معذوری ظاہر کردی۔
بھٹوصاحب خود کہاں تک اس مسئلہ سے دلچسپی رکھتے تھے۔اس کااندازہ ان کی تقریروں سے اوربالخصوص آخری تقریر سے جواس مسئلہ پر انہوں نے اسمبلی میںکی،ہوتاہے۔
آخری تقریر میں انہوں نے اس میں شک نہیں کہ اسے مسلمانوں کا دیرینہ مطالبہ قرار دیا ۔پرانامسئلہ بتایا لیکن یہ نہیںبتایا کہ یہ حضورﷺکے مقام کے تحفظ کامسئلہ ہے۔ناموس مصطفی ﷺ کا مسئلہ ہے۔ مسلمانوں کے ایمان اورعقیدہ کامسئلہ ہے۔ادھر وہ یہ مسئلہ حل کررہے ہیں دوسری طرف سیکولر ازم اورسوشل ازم کانام لے رہے ہیں۔ معلوم نہیں بیک وقت بھٹو صاحب کس کس کوخوش کرنا چاہتے ہیں۔سوشلزم سوشلزم زبان پر اب تک جاری ہے۔لیکن اتنی ہمت نہیں ہوسکی کہ اس لفظ کو آئین میں جگہ دلاسکیں۔ برخلاف اس کے مولاناشاہ احمدنورانی اور دیگر علماء کی جدوجہد سے اسلام کو سرکاری مذہب مانناپڑا۔مسلمان کی تعریف آئین میں شامل کرناپڑی اور اب قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قراردیناپڑا۔
بھٹوصاحب آخر وقت تک راضی نہیںہورہے تھے۔کبھی اعتراض یہ تھا کہ لفظ قادیانی احمدی نہیں آناچاہئے۔ کبھی غلام احمد نام پراعتراض۔غرض یہ کہ ۵؍ستمبر ۱۹۷۴ء سے رہبر کمیٹی کے افراد مولانا شاہ احمدنورانی،پروفیسرغفور احمد،حضرت مولانا مفتی محمودؒ، عبدالحفیظ پیرزادہ ،مولاناکوثر نیازی، مولا بخش سومرو صاحب، جناب فاروق صاحب اورچودھری ظہور الٰہی صاحب کی میٹنگ بھٹو صاحب کے یہاں شروع ہوئی۔۵کو دومیٹنگز ہوئیںمگر مسئلہ طے نہ ہوا۔ ۶ ؍ستمبر کو دومیٹنگز ہوئیں۔
ادھر مرکزی مجلس عمل ،تحفظ ختم نبوت کا راولپنڈی میں مسلسل اجلاس ہورہاتھا۔ سارے لوگ فیصلے کے منتظر تھے۔ پوری قوم لڑنے مرنے کوتیار تھی۔ پورے ملک کے کونے کونے میں فوج