پنجاب تو پنجاب،سندھ میں بھی یہی رویہ اختیار کیاگیا۔ میں خود سندھ میں متعدد شہروں اورقصبات میں گیا۔ جلسوں سے خطاب کیا۔ بعض جگہوں پر لاؤڈ سپیکر زبردستی استعمال کیا۔لیکن یہ دیکھ کرتعجب ہوا کہ ٹنڈ و آدم کی مسجد میں مجلس عمل تحفظ ختم نبوت صوبہ سندھ کا ایک جلسہ تھا۔ جس میں مجھے اورمولانا محمد حسن حقانی ایم پی اے کراچی کو خطاب کرناتھا۔رات کو جب ہم لوگ بذریعہ کار ٹنڈوآدم پہنچے تو معلوم ہوا کہ جلسہ فلاں مسجد میں ہے۔ وہاں جاکر دیکھا کہ بغیر لاؤڈ سپیکر جلسہ چل رہا ہے۔
پورے شہر میں مساجد کے لوگ ڈر کے مارے جلسہ کرانے سے گھبرارہے تھے۔دہشت گردی کی اس سے بڑی مثال اورکیا مل سکتی ہے۔ لوگ ہزاروں کی تعداد میں گرفتار ہوئے۔ اسلام آباد میں میری موجودگی میں گورنمنٹ ہاسٹل کے سامنے ایک جلوس پرٹیز گیس کے شیل پھینکے گئے۔لاٹھی چارج ہوا۔یہاںتک کہ ہوسٹل کے اندرجہاں اراکین قومی اسمبلی ٹھہرے ہوئے تھے۔ شیل پھینکے گئے۔یہ واقعہ جمعہ ۷؍جون ۱۹۷۴ء کو دوپہر کو ہوا اوررات بھر بلکہ دوسرے دن تک لوگ ہوسٹل سے باہر نہ نکل سکے۔ اس لئے کہ شیل کے دھویں کی وجہ سے آنکھیں کھولنی مشکل ہوگئی تھیں۔
اوکاڑہ،ساہیوال ،جہلم، گجرات،سرگودھا،لائل پور میں جو کچھ ہوا۔وہ حکومت کے کارناموں کا بدترین ریکارڈ ہے۔ سمجھ میں یہ بات نہیں آئی کہ آخر ختم نبوت کے عقیدہ کی تبلیغ سے کیا نقصان پہنچ رہاتھا۔ادھر تو تحریر وتقریر پرپابندی عائد کی گئی۔ اخباروں پرسنسر لگادیاگیا ۔ادھر قادیانیوں کو کھلی چھٹی تھی کہ وہ جو چاہیں اپنے اخباروں اوررسالوں میں لکھ دیں۔ جس طرح چاہیں سائیکلو اسٹائل مضامین خطوط کے ذریعے عام مسلمانوں کو بھیجیں اورگمراہ کریں ۔سواداعظم کوئی اشتہار کتابچہ چھاپے تو اس پرپابندی تھی۔اسلام دوسری اورحضورﷺ سے وابستگی کامظاہرہ۔
اس تحریک کی ساری کامیابی کا اعزاز صرف اورصرف عامتہ المسلمین بالخصوص سواد اعظم اہل سنت وجماعت کے عقیدہ رکھنے والوں کو جاتا ہے۔ جنہوں نے اپنی انتھک کوششوں سے حکومت کوگھٹنے ٹیکنے پرمجبور کردیا،قابل مبارکباد ہیں۔۱۹۵۳ء کے شہداء اور اسیران قابل مبارکباد ہیں۔ علماء اورطلباء قابل مبارکباد ہیں۔ وہ شہداء جن کا خون اس تحریک میںبہا مبارکباد کے مستحق ہیں۔قابل مبارکباد ہیں لوگ جنہوں نے قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کیں اور پھر وہ لوگ جو قومی اسمبلی کے اراکین ہیں۔بالخصوص وہ علماء جنہوں نے اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اوراپنادن رات ایک کردیا۔