اتنی بات ضرور ہے کہ وہ اپنا عقیدہ خود اراکین اسمبلی کے سامنے بیان کرگیا اوراس بات کا اعلان کر گیا کہ حضورﷺ کے بعد مسیح موعود اورامتی نبی ہے۔ جن اراکین اسمبلی کو قادیانیوں کے متعلق حقائق نہیں معلوم تھے۔انہیں بھی معلوم ہو گئے اورانہیں اس بات کایقین ہوگیا کہ دراصل یہ لوگ کافر،مرتد اوردائرہ اسلام سے خارج ہیں۔
جس طرح ان قادیانیوں نے قرآن وحدیث کی توضیح اورمن مانی تشریح کی ہے۔ اس طرح مرزاناصر ،مرزاغلام احمدقادیانی کے اقوال اورتحریرات کی توجیح بیان کر رہا تھا۔بہر حال اﷲ کاشکر ہے کہ وہ اپنے مشن میں کامیاب نہ ہوسکا ۔بلکہ اورزیادہ ذلیل ورسواہوا۔
نئی تہذیب اورتعلیم کے لوگ جو مذہبی مسائل کو دقیانوسی شمارکرتے ہیں اور اس مسئلہ کو خالص فرقہ وارانہ شیعہ سنی یاوہابی مسئلہ سمجھتے تھے،وہ بھی اس بات کے قائل ہو گئے کہ یہ لوگ ایک الگ مذہب کے پرچارک ہیں اور یہ اسلام کے خلاف ایک زبردست سازش ہے۔
مولاناشاہ احمدنورانی، مولانا عبدالمصطفیٰ الازہری، مولانا سید محمدعلی رضوی اوراس ضعیفی اورعلالت میں مولانا ذاکر صاحب نے جو کردارادا کیا وہ تاریخ کے اوراق میں سنہرے حروف میں لکھے جانے کے قابل ہیں۔مولاناشاہ احمدنورانی نے اس تین ماہ کے دوران تقریباً پنجاب کے علاقہ میں چالیس ہزارمیل کا دورہ کیا۔ رات رات بھردور ے کرتے رہے۔ تقریریں کیں۔ مسلمانان اہل سنت کو حقائق سے روشناس کرایا اورپھر اسمبلی کی کمیٹی اوررہبر کمیٹی میں فرائض انجام دیئے۔ سینکڑوں کتابوں کامطالعہ کیا ۔ان کے محضر نامہ کے جواب کی تیاری کی۔ علامہ عبدالمصطفیٰ الازہری، مولانا محمدعلی رضوی اورمولاناذاکر نے سوالات اورجوابی سوالات تیار کئے ۔ مسلسل مہینوںاجلاس میں شرکت کے لئے اسلام آباد میں مقیم رہے۔
حکومت اوربالخصوص جناب ذوالفقار علی بھٹو کے رویہ کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتاہے کہ اس پوری تحریک کے دوران ان کی جماعت کے لوگوں نے کھل کر عوام کے سامنے نہ کوئی تقریر کی اور نہ عوام کے اس مطالبہ کی حمایت کی۔ ہاں کمیٹی اوررہبر کمیٹی کو طول دینے کا فریضہ انجام دیا۔ پورے ملک میں زوروشور سے تحریک چل رہی تھی اورحکومت طاقت استعمال کر رہی تھی۔جگہ جگہ ظلم وتشدد کی پرانی داستان دہرائی گئی۔ بے گناہ لوگوں پر گولیاں برسائی گئیں۔ جلسہ جلوس پرپابندی عائد کر دی گئی۔حتیٰ کہ مساجد میں بھی لاؤڈ سپیکر کے استعمال پرپابندی عائد کی گئی۔