،مولانا کوثر نیازی شامل کئے گئے۔
۳۰؍جون ۱۹۷۴ء کے بعد کمیٹی کے مسلسل اجلاس شرو ع ہوئے اور قراردادوں پر غور کرنے کے لئے مختلف پہلوؤں کاجائزہ لیاگیا۔
اسی اثناء میں قادیانی ربوہ گروپ اورلاہوری گروپ کے سربراہوں کا ایک خط کمیٹی میںپیش کیا گیا۔ جس میں مرزا ناصر احمد ربوہ گروپ نے اورلاہوری گروپ کے سربراہ صدر الدین نے اپنی صفائی پیش کرنے اوراپنے عقائد کی وضاحت کے لئے حاضری کی اجازت مانگی۔کمیٹی نے خوشی سے اجازت دے دی۔ مرزا ناصر احمد ایک محضر نامہ کے ساتھ جو ۱۸۰ صفحات پر مشتمل تھا،حاضر ہوا۔ خدا کی قدرت اور نبی کریمﷺ کا معجزہ دیکھئے ،جس وقت مرزا نے محضر نامہ پڑھنا شروع کیا۔اسمبلی کے اندر اس بندایئر کنڈیشنڈ کمرے میں اوپر کے چھوٹے پنکھے سے ایک پرندے کا پر جو غلاظت سے بھراہواتھا،سیدھا اس محضر نامہ پر گرا جس پر وہ چونک پڑا اورکہا (I am in turb) سارے اراکین اسمبلی یہ تماشادیکھ رہے تھے۔ اس سے پہلے کبھی ایسا نہیں ہواکہ کوئی چیز اوپر سے اس طریقہ سے گرے۔
بہرحال محضر نامہ پڑھاگیا ۔اس کمیٹی کے علماء اوردیگر افراد نے سوال نامہ مرتب کیا اور نیز علمائے ملت کی طرف سے محضر نامہ کا جواب دیاگیا۔مولوی غلام غوث ہزاروی نے بھی محضر نامہ کا اپنی طرف سے الگ جواب دیا۔
سوالوں کی تعداد طویل تھی۔ تقریباً ۷۵سوالات صرف علامہ عبدالمصطفیٰ الازہری مولانا سید محمدعلی رضوی اورمولاناذاکر صاحب کی طرف سے پیش کئے گئے۔ سوالات لکھ کر اسمبلی کے سیکرٹری کو دیئے گئے اوران سوالات کو پوچھنے کی ذمہ داری اٹارنی جنرل پاکستان جناب یحییٰ بختیار کے سپرد کی۔
مسلسل گیارہ روز تک مرزاناصر سے جرح ہوتی رہی اور سوال اورجوابی سوال کیاجاتا رہا۔ مرزا کوصفائی پیش کرتے کرتے پسینہ چھوٹ جاتا اورآخر تنگ ہوکر کہہ دیتا کہ بس اب میں تھک گیاہوں۔ ایئرکنڈیشنڈ کمرے میںپچاس سے زائد گلاس پانی کے مرزاناصر روزانہ پیتاتھا۔ اسے یہ گمان نہیںتھا کہ اس طرح عدالتی کٹہرے میں بٹھاکرجرح کی جائے گی۔ سوالات اور جرح کی کارروائی چونکہ ابھی پوشیدہ رکھی گئی ہے۔ اس لئے اس کی تفصیلات بیان نہیں کی جا سکتی۔ ہاں