تنظیموں اوراداروں کے وفود نے شرکت کی،متفقہ طور پر یہ رائے ظاہر کی گئی کہ قادیانی اسلام اور عالم اسلام کے خلاف ایک تخریبی تحریک ہے۔جو ایک اسلامی فرقہ ہونے کادعویٰ کرتی ہے۔
اب اس اسمبلی کو یہ اعلان کرنے کی کارروائی کرنی چاہئے کہ مرزاغلام احمد کے پیرو کار انہیں چاہئے کوئی بھی نام دیا جائے،مسلمان نہیں اور یہ کہ قومی اسمبلی میں ایک سرکاری بل پیش کیا جائے تاکہ اس اعلان کو مؤثر بنانے کے لئے اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کی ایک غیر مسلم اقلیت کے طور پر ان کے جائز حقوق ومفادات کے تحفظ کے لئے احکام وضع کرنے کی خاطر آئین میں مناسب اور ضروری ترمیمات کی جائیں۔ قرار داد پر مندرجہ ذیل افراد نے دستخط کئے۔
۱…مولانا مفتی محمود۔۲…مولانا شاہ احمدنورانی۔۳…مولاناسید محمدعلی رضوی۔۴…چودھری ظہورالٰہی۔۵…مولانا عبدالمصطفیٰ الازھری۔۶…پروفیسرغفور احمد۔۷…مولانا عبدالحق (اکوڑہ خٹک)۔۸…سردارشیر بازخان مزاری۔۹…مولانا ظفراحمدانصاری۔۱۰…صاحب زادہ احمد رضا قصوری۔۱۱…مولاناصدر الشہید۔۱۲…جناب عمرہ خان۔۱۳…سردار شوکت حیات خان۔۱۴…راؤ خورشید علی خان۔۱۵…جناب عبدالحمید جتوئی۔۱۶…جناب محمود اعظم فاروقی۔۱۷…مولوی نعمت اﷲ۔۱۸…سردار مولابخش سومرو۔۱۹…حاجی علی احمد تالپور۔ ۲۰…رئیس عطاء محمد مری۔۲۱…مخدوم نورمحمد صاحب۔
بعد میں قرارداد پر مندرجہ ذیل افراد نے دستخط کئے:
۲۳…نوابزادہ میاں محمد ذاکر قریشی۔۲۴…جناب کریم بخش اعوان۔۲۵…مہر غلام حیدربھروانہ۔۲۶…صاحبزادہ صفی اﷲ۔۲۷…ملک جہانگیر خان۔۲۸…جناب اکبر خان مہمند۔۲۹…حاجی صالح خان۔۳۰…خواجہ جمال محمد کوریجہ۔۳۱…جناب غلام حسن خان دھاندلہ۔۳۲صاحبزادہ محمدنذیر سلطان۔۳۳…میاں محمد ابراہیم برق۔۳۴…صاحبزادہ نعمت اﷲ خان شنواری۔۳۵…جناب عبدالسبحان خان۔۳۶…میجر جنرل جمالدار۔۳۷… جناب عبدالمالک خان۔
قرارداد اسمبلی میں غور کے لئے پیش ہونے کے بعد پوری اسمبلی کو ایک خصوصی کمیٹی میں تبدیل کردیاگیا۔نیز چند لیڈروں پر مشتمل ایک رہبرکمیٹی بنائی گئی۔جس میں مولانا شاہ احمد نورانی۔ پروفیسر غفور احمد۔حضرت مولانا مفتی محمودؒ وغیرہ شامل تھے۔ حکومت کی طرف سے عبدالحفیظ پیرزادہ