ایاز خان صاحب نیازی صدر جمعیت علمائے پاکستان (کراچی ڈویژن) کوبنایاگیا۔
جنہوں نے اس صوبہ کے تمام اضلاع میں مجلس عمل کی بنیاد ڈالی۔دورے کئے اور مسئلہ سے عوام الناس کوروشناس کرایا اورحکومت پردباؤڈالا کہ وہ اس مسئلہ کو التواء میں نہ ڈالے۔ ادھر پنجاب میں مولانا شاہ احمدنورانی صدیقی اورمولاناعبدالمصطفیٰ الازہری،مولانا سید محمدعلی رضوی، مولانا محمدذاکر صاحب اورمفتی ظفر علی نعمانی (سینیٹر) دومحاذوں پرلڑ رہے تھے۔ پورے صوبے کا دورہ بھی کررہے تھے اوراسمبلی کی کارروائیوں میں برابر کے شریک رہے۔
ان حضرات کے ساتھ بطل حریت جانباز ختم نبوت مولاناعبدالستار نیازی جنہیں ۱۹۵۳ء کی تحریک میں پھانسی کی سزا دی گئی تھی،بھی شامل ہوئے اور پورے پنجاب میں ان علماء اور انجمن طلباء اسلام کے سپوتوں نے حضورﷺ کے عشق ومحبت کا اپنی بساط سے زیادہ حق ادا کیا۔ انجمن طلباء اسلام پنجاب کے صدر اقبال اظہری، محمد خان لغار ی سیکرٹری نشر واشاعت، قاری عطاء اﷲ نائب ناظم رانا لیاقت ناظم، لاہور راؤ ارتضیٰ اشرفی ،ناظم اوکاڑہ ،عبدالرحمن مجاہد ،سند ھ کے حافظ محمدتقی افضال قریشی، محمد حنیف طیب، علماء میں مجاہداہل سنت صاحبزادہ سید محمود شاہ گجراتی اسیرہوئے اورضمانت پر رہائی سے انکار کردیا۔سخت اذیتوں میں مبتلاکئے گئے۔جمعیت علمائے پاکستان پنجا ب کے صدر مولانا غلام علی اوکاڑوی،مولانا محمدبشیر چشتی خطیب پنڈی گھیپ کوبھی اسیری کا شرف حاصل ہوا۔
ان مشاہیر کے علاوہ سینکڑوں خطباء اور آئمہ قید وبند میں ڈالے گئے۔ باوجودحکومت کے تشدد اورپابندی کے ان علماء نے آواز حق بلند کیا۔لاؤڈ سپیکر پرپابندی لگ گئی۔ مساجد میںجلسے سے روک دیاگیا۔ پورے ملک میں دفعہ ۱۴۴ کانفاذ ہوگیا اور اس طرح ذکر مصطفیﷺ کو پوری شدت سے روکا گیا۔ لاٹھی چارج ہوا۔ آنسو گیس چھوڑی گئی۔ گولیاں چلیں۔پنجاب کے بعض علاقوں میں خود ایس پی اور ڈی ایس پی نے گولیاں چلائیں۔ ۴۰کے قریب افراد نے راہ حق میں جام شہادت نوش کیا۔یہ تمام کام باہر ہورہے تھے اوراندرحکومت مشورے کر رہی تھی۔ تین روز کے کام میں مسلسل تین مہینہ لگایاگیا۔
اس اثناء میں بھٹوصاحب نے بلوچستان کا دورہ کیا۔ وہاں کے غیور بلوچ اورپٹھانوں نے قادیانیوں کے متعلق اپنے ردعمل کا اظہارکیا توبھٹو صاحب نے فوری طور پر ایک تاریخ مقرر