ملت اسلامیہ کے جسم میں ایک ایسی فارن باڈی کی ہے جسے جسم کسی طرح قبول نہیں کرسکتا اور اسے نکالے بغیر نہ جسم کو چین ملتا ہے اور نہ وہ صحت مند ہو سکتا ہے۔ ملت اسلامیہ کے اس اضطراب اوراس بلا سے گلو خلاصی حاصل کرنے کی کش مکش نے جب کبھی اظہار کی کوئی شکل اختیار کی ہے تو قادیانیوں نے ہمیشہ اپنے سرکاری اثر ورسوخ کے ذریعے اسے سختی سے دبادیا ہے۔ یہ کشمکش اور اضطراب ایسے ہتھکنڈوں کے نتیجے میں وقتی طور پر تودب جاتا ہے لیکن حقیقی امن وسکون اسی صورت میں حاصل ہوسکتا ہے جبکہ اس فارن باڈی کو ملت کے نظام جسمانی سے الگ کردیاجائے۔
قادیانیوں کی دینی اور سماجی حیثیت کے بارے میں امت مسلمہ کی رائے بہت واضح اور متفق علیہ ہے:
۱… امت میں اس بات پر اجماع ہے کہ حضرت محمدﷺ پر نبوت کا سلسلہ ختم ہوگیا ہے اور ان کے بعد کوئی نبی نہیں آنے والا۔ نیز اس بات پر بھی اجماع ہے کہ ان کے بعد نبوت کا دعویٰ کرنے والا اوراسے ماننے والا کافر اوردائرئہ اسلام سے خارج ہے۔
۲… علامہ اقبال نے آج سے تقریباً چالیس سال قبل ۱۹۳۵ء میں ان کے ایک الگ امت قرار دیئے جانے کا مسئلہ اٹھایاتھا۔نیز پنڈت جواہر لال نہرو کے نام اپنے خط مورخہ ۱۲؍جون ۱۹۳۶ء میں یہ لکھا تھا کہ: ’’میرے ذہن میں اس بارے میں کوئی شبہ نہیں کہ احمدی اسلام اور ہندوستان دونوں کے غدار ہیں۔‘‘
۳… ۷؍فروری ۱۹۳۵ء کوڈسٹرکٹ جج بہاولنگر نے اپنے فیصلے میں قادیانیوں کو دائرہ اسلام سے خارج قرار دیا۔ اسی طرح ۳؍جون ۱۹۵۵ء کو ایڈیشنل ڈسٹرکٹ جج راولپنڈی نے اور۱۳؍ جولائی ۱۹۷۰ء کو سول جج سماروجمسا آباد ضلع میرپورخاص نے اپنے اپنے فیصلوں میںقادیانیوں کو دائرہ اسلام سے خارج قرار دیا۔
۴… ۱۹۵۳ء میں پاکستان کے تمام مکاتب فکر (دیوبندی،بریلوی،اہل حدیث، شیعہ وغیرہ) کے علماء نے متفقہ طور پر قادیانیوں کو دائرہ اسلام سے خارج قرار دیا اوران کو ایک غیر مسلم اقلیت قرار دینے کامطالبہ کیا۔
۵… ۲۸؍اپریل ۱۹۷۳ء کوآزاد کشمیر اسمبلی نے قادیانیوں کواقلیت قرار دینے کی قرارداد پاس کی۔
۶… اپریل ۱۹۷۴ء میں مکہ مکرمہ میں پورے عالم اسلام کی ایک سوآٹھ(۱۰۸)تنظیموں کے اجتماع میں قرارداد پاس کی گئی۔ جس میںقادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے اور انہیں کلیدی اسامیوں سے ہٹانے کامطالبہ کیاگیا۔