گئی تو ہم کیا تبدیلیاں لائیںگے۔ (روزنامہ جنگ راولپنڈی۴؍اگست ۱۹۶۵ئ)
’’اسی طرح ۱۹۷۰ء کے عام انتخابات میں انہوں نے پیپلزپارٹی کے ساتھ باقاعدہ معاہدہ کر کے جس طرح انتخابات میں نہ صرف پیپلزپارٹی کی مالی اورافرادی مدد کی اوراس ایک فیصلے کے تحت تمام قادیانیوں کے ووٹ دلائے بلکہ اپنے متعدد امیدواربھی کامیاب کرائے۔‘‘
(روزنامہ ندائے ملت لاہور ۲۹؍دسمبر ۱۹۷۰ئ)
انگریزوں کی وفاداری کا جو تذکرہ اوپر کیاجاچکا ہے۔ اس کی رو سے چونکہ یہ الہام کا نتیجہ اور مذہبی فریضہ تھا۔ اس لئے وہ انگریزوں کے ہندوستان سے رخصت ہو جانے کے ساتھ ختم نہیں ہو سکتا۔ بلکہ انگریز اور قادیانی مشترک مفاد قائم ودائم ہے اور قیام پاکستان کے بعد اب تک کئی ایسے ملکوں میں جو انگریز کے زیرنگیں یا زیراثر رہے ہیں۔ان میں قادیانی مشن ان کی سرپرستی حاصل کرتے رہے ہیں۔ خود پاکستان میں ظفر اﷲ خان، ایم ایم احمد اور عبدالسلام کی ترقی اور بین الاقوامی اداروں میں ان کی پذیرائی بھی اسی سرپرستی کی غماض ہے۔ پھر پاکستانی قوم او ر حکومت کی طرف سے اسرائیل کے مکمل مقاطع کے باوجود اسرائیل میں قادیانی مشن کا سرگرم رہنا ربوہ اور قادیان کے درمیان وقفے وقفے سے افراد کاتبادلہ اور حال ہی میں ظفر اﷲ خان کا سفر بھارت ذہن میں بہت سے شکوک وشبہات ابھارتاہے۔ اس ضمن میں ظفر اﷲ خان کا خط مورضہ ۴؍اکتوبر ۱۹۷۲ء بنام مسٹر زاہد ڈپٹی لیگل ایڈوائزر حکومت پاکستان لائق توجہ ہے۔ اس خط کا عکس روزنامہ جسارت کراچی مورخہ ۱۷؍جون ۱۹۷۴ء میں شائع ہوا ہے اور اس میں ظفر اﷲ نے مسٹر بچ ایڈوائزر اطلاعات حکومت پاکستان کو ایک پارسل بھیجنے کے ساتھ مکتوب الیہ کو تاکید کی ہے کہ مسٹر بچ کا جواب انہیں سفارتی ڈاک میں بھجوائیں۔ پھر روزنامہ نوائے وقت لاہور مورخہ ۱۹؍جون ۱۹۷۴ء میں اس پریس کانفرنس کی پوری روداد شائع ہوئی ہے جو ۵؍جون ۱۹۷۴ء کو ظفر اﷲ خان نے لندن میں کی گئی۔ اس میں انہوں نے نہ صرف سراسر غلط معلومات بین الاقوامی پریس کو فراہم کی ہیں بلکہ یہ بھی فرمایا ہے کہ امریکہ میں ہماری جماعت امریکہ کی وزارت خارجہ سے برابر رابطہ میں ہے۔ آگے چل کر فرمایا : ’’میں چاہتا ہوں کہ انگلستان میںاحمدی لوگ برطانوی دفتر خارجہ سے تعلق پیدا کریں اور برطانوی پارلیمنٹ کے ارکان کی توجہ بھی اس جانب مبذول کرائیں تاکہ برطانوی حکومت بھی اپنامؤثر کرداراداکرسکے۔‘‘
حقیقت یہ ہے کہ قادیانی اپنے آپ کومسلمانوں سے ایک الگ امت کہتے ہوئے اور عملا ً ایک الگ امت کی طرح رہتے ہوئے مسلمانوں کے معاشی اور سیاسی حقوق غصب کرنے اوران پر بزور سیاسی تسلط حاصل کرنے کے لئے مسلمانوں کا سیاسی جزو بن کر رہنے پرمصر ہیں۔ ان کی مثال آکاس بیل کی ہے جو کسی دوسرے درخت پر چڑھ کر اس کا رس چوس چوس کر پھیلتی چلی جاتی ہے۔ یا ان کی مثال