ان سیاسی عزائم کے ساتھ وہ ایک طرف انگریز کی سرپرستی سے فائدہ اٹھا کر زندگی کے مختلف شعبوں میں اپنے قدم جماتے رہے اوردوسری طرف مسلمانوں کے سواد اعظم کی سیاسی تمناؤں کے خلاف کام کرتے رہے: ’’حقیقت میں وہ انگریز کے ہندوستان سے رخصت ہونے کے بعد اس کے جانشین بننے کے خواب دیکھ رہے تھے۔ وہ قیام پاکستان کے مخالف تھے اور اگر کسی طرح ملک تقسیم ہوتا ہے تو اسے دوبارہ متحد کرنے کے عزائم رکھتے تھے۔‘‘ (منیر رپورٹ ص۱۹۶)
لیکن جب بالآخر پاکستان بن گیا تو انہوں نے سروسز میں نفوذ ، سازشوں اور بیرونی طاقتوں کی مدد سے پاکستان میںمسلمانوں پر اپنا اقتدار قائم کرنے کی جدوجہد شروع کردی۔ اس غرض کے لئے انہوں نے ایک طرف بلوچستان کو اپنے بیس میں تبدیل کرنے کا منصوبہ بنایا(منیر رپورٹ ص۱۹۹)اوردوسری طرف مختلف سروسز میں منصوبہ بندی کے ذریعے نفوذ اور ملازمین حکومت اور عام لوگوں کو مرزائی بنانے کی مہم شروع کر دی(منیر رپورٹ ص۲۰۰)اسکے ساتھ ساتھ انہوں نے انگریز کی سرپرستی اور ملازمین حکومت میں اپنے نفوذ کے ذریعے ضلع جھنگ میں ایک ہزار ایکڑ سے زائد اراضی بطور گرانٹ برائے نام قیمت پر حکومت سے حاصل کی اور’’ربوہ‘‘ کے نام سے اپنی ایک بستی بنائی جس میں عام مسلمانوں کا داخلہ قادیانیوں کی مرضی اوراجازت کے بغیر نہیں ہوسکتا۔
ربوہ کو انہوں نے اپنا مرکز بنایا اور وہاں ریاست کے اندر ایک ریاست قائم کر لی۔ جس میں ایک مکمل سیکرٹریٹ کے تمام شعبے بشمول امور خارجہ، داخلی امور،امور عامہ ، شعبہ اطلاعات و پروپیگنڈہ وغیرہ قائم کئے گئے۔ (منیر رپورٹ ص۱۹۸)
اس مرکز میں سیکرٹریٹ کے علاوہ خدام احمدیہ، انصار اﷲ اورقربان بٹالین کے نام سے نیم عسکری تنظیمیں بھی قائم کی گئیں (منیر رپورٹ ص۱۹۸)نیزخلیفہ بشیرالدین نے قادیانیوں کو فوجی تیاری اورتربیت کی تلقین کی(الفضل ۱۱؍اپریل ۱۹۵۰ئ)اس طرح گویا انہوں نے اقتدار پر قبضہ کرنے اور اس سے پہلے ایک چھوٹے پیمانے پر ریاست چلانے کا تجربہ کرنے کی تیاری شروع کر دی۔
راولپنڈی سازش کیس میں بھی ان کے سیاسی عزائم کی ایک جھلک دیکھی جا سکتی ہے۔ جس میں بعض قادیانی افسروں نے سوشلسٹوں سے مل کر بزور حکومت پر قبضہ کرنے کی ناکام کوشش کی۔ قادیانی اگر زیرزمین سرگرمیوں پرپردہ ڈالنے کے لئے اپنے آپ کو ایک خالص مذہبی اور غیر سیاسی جماعت ظاہر کرتے ہیں۔ لیکن ان کے سیاسی عزائم وقتاً فوقتاً ظاہر ہوتے رہتے ہیں۔ جس کی مثالیں اوپردی جا چکی ہیں اور ایسی ایک مثال وہ پریس کانفرنس ہے جو لندن میں کی گئی۔ جس میں ظفراﷲ خان بھی موجود تھے اورجس میں یہ اعلان کیاگیا کہ اگر پاکستان میں ہماری حکومت قائم ہو