۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی اوراس کے بعد تحریک مجاہدین اور شمال مغربی سرحد پرپٹھانوں اور افغانوں کی کارروائیوں کا تجربہ انہیں ہوچکاتھا۔ مسلمان علماء انگریزوں کے زیرتسلط ہندوؤں کو دارالحرب قرار دے چکے تھے اورانگریز سیاست دان یہ جان گئے تھے کہ جب تک مسلمانوں کا زور نہ توڑاجائے،سلطنت برطانیہ کو استحکام نصیب نہیںہوسکتا۔ چنانچہ اس مقصد کے حصول کے لئے انہوں نے دیگر تدابیر کے علاوہ مسلمانوں کو اندر سے کمزور کرنے کی کوشش کی۔ جس میں مرزاغلام احمد قادیانی کی تعلیمات اور سرگرمیاں ایک مؤثر حربے کی حیثیت رکھتی ہیں۔ انہوں نے نہ صرف مسیح موعود او رنبی ہونے کا دعویٰ کر کے (منیر رپورٹ(انگریزی)ص۱۸۹)امت مسلمہ میں افتراق پیدا کیا۔ بلکہ مسلمانوں کے اساسی معتقدات (کتاب اﷲ پر ایمان، ملائکہ پر ایمان، تخلیق آدم، ختم نبوت،جہاد،حج وغیرہ) کے بارے میں انوکھی بحثیں چھیڑ کر ان میں پراگندہ خیالی اور فکری انتشار پیداکیا۔ ان کے جوش وجذبہ جہاد کو سرد کرکے انگریز کی اطاعت ا وروفاداری پر آمادہ کرنے کی کوشش کی۔
مرزا غلام احمد اوراس کے ماننے والوں کی یہ روش مسلمانوں میں ان کے خلاف بیزاری اور نفرت پیدا کرنے کے لئے کافی تھی۔ لیکن انہوں نے اسی پر بس نہ کی بلکہ قرآن میںلفظی اور معنوی تحریف کی (قادیانی امت از محمد شفیع جوش میر پوری ص۲۲تا۵۸)ان صفحات میں قادیانی لٹریچر میں تحریف شدہ آیات کے عکس دیئے گئے ہیں۔ حضورنبی کریمﷺ ،حضرت عیسیٰ علیہ السلام او ر دیگر انبیاء علیہم السلام ،حضرت علیؓ، حضرت فاطمہؓ، امام حسینؓ اورمسلمانوں کے مقامات مقدسہ (مکہ معظمہ اورمدینہ منورہ) کی توہین کی۔ رسول اکرمﷺ ،اہل بیت ،صحابہ کے لئے مخصوص اصطلاحات کو اپنے لئے استعمال کیا(منیر رپورٹ ص۱۹۷)مسلمانوںکو اپنا دشمن قرار دیا(منیر رپورٹ ص۲۰۰) اورمسلمانوں کی شکست اورانگریزوں کی فتح پر قادیان میں جشن مسرت منایاگیا۔ (منیر رپورٹ ص۱۹۶)
مسلمانوں پر شدید اشتعال انگیر حملے کئے گئے۔مرزاغلام احمد کو مسیح موعود اور نبی نہ ماننے والوں کوکافر اوردائرہ اسلام سے خارج قرار دیا(منیر رپورٹ ص۱۹۰)مسلمانوں کے ساتھ نماز پڑھنا، ان کی نماز جنازہ پڑھنا اوران سے شادی بیاہ کو ناجائز اورحرام قراردیا۔(منیر رپورٹ ص۱۹۸، ۱۹۹)لیکن ان سب کے باوجود وہ معاشی اورسیاسی میدانوں میں انگریز کی سرپرستی میں مسلمانوں کے حقوق پرڈاکہ ڈالنے کے لئے ان میں گھسے رہے۔
مرزاغلام احمد قادیانی نے اگرچہ بظاہر اپنی سرگرمیوں کا رنگ مذہبی رکھا لیکن وہ اور ان کے متبعین اس مذہبی چہرے کے پیچھے شروع سے ہی سیاسی عزم رکھتے تھے۔ جیسا کہ ان کی حسب ذیل تحریروں سے واضح ہے: