ممانعت جہاد اورانگریزی اطاعت کے بارے میں اس قدر کتابیں لکھی ہیں اور اشتہارات طبع کئے ہیں کہ اگر وہ رسائل اورکتابیں اکٹھی کی جائیں تو پچاس الماریاں ان سے بھر سکتی ہیں۔‘‘
(تریاق القلوب ص۲۵، خزائن ج۱۵ص۱۵۵)
’’میں اپنے کام کو نہ مکہ میں اچھی طرح چلا سکتا ہوں نہ مدینہ میں،نہ روم میں نہ شام میں، نہ ایران میں ، نہ کابل میں،مگر اس گورنمنٹ میں جس کے اقبال کے لئے دعا گوہوں۔‘‘
(تبلیغ رسالت ج ۶ ص۲۹، مجموعہ اشتہارات ج۲ص۳۷۰)
’’بلکہ اس گورنمنٹ کے ہم پر اس قدر احسان ہیں کہ اگر ہم یہاں سے نکل جائیں تو نہ ہمارا مکہ میں گزارا ہو سکتا ہے اور نہ قسطنطنیہ میں، تو پھر کس طرح ہوسکتا ہے کہ ہم اس کے برخلاف کوئی خیال اپنے دل میں رکھیں۔‘‘ (ملفوظات احمدیہ ج ۱ ص۱۴۰)
اس سلسلہ میں جرمن اورافغان حکومتوں کی شہادتیں بھی خود قادیانیوں کی زبانی ملاحظہ فرمائیں:
’’دنیا ہمیں انگریزوں کاایجنٹ سمجھتی ہے۔ چنانچہ جب جرمنی میں احمدیہ عمارت کے افتتاح کی تقریب میں ایک جرمن وزیر نے شمولیت کی تو حکومت نے اس سے جواب طلب کیا کہ کیوں تم ایسی جماعت کی کسی تقریب میں شامل ہوئے جو انگریزوںکی ایجنٹ ہے۔‘‘
(خلیفہ قادیان کاخطبہ جمعہ،مندرجہ اخبار الفضل مورخہ یکم نومبر۱۹۳۴ئ)
’’افغان گورنمنٹ کے وزیرداخلہ نے مندرجہ ذیل اعلان شائع کیا ہے کابل کے دو اشخاص ملا عبدالحلیم چہار آسیانی و ملانور علی دکاندار قادیانی عقائد کے گرویدہ ہوچکے تھے اور لوگوں کو اس عقیدہ کی تلقین کر کے انہیں اصلاح کی راہ سے بھٹکار ہے۔ان کے خلاف مدت سے ایک اور دعویٰ دائر ہوچکا تھا اورمملکت افغانیہ کے مصالح کے خلاف غیر ملکی لوگوں کے سازشی خطوط ان کے قبضے سے پائے گئے جن سے پایا جاتا ہے کہ وہ افغانستان کے دشمنوں کے ہاتھ بک چکے تھے۔‘‘
(اخبارالفضل بحوالہ امان افغان۳؍مارچ ۱۹۲۵ء )
انگریز کی اس کھلی ،گہری اور غیرمشروط وفاداری کے ساتھ مرزاغلام احمد نے جس طرح جہاد کی تنسیخ کا اعلان کیا(منیررپورٹ ص۹۳)اورعیسائیوں کے خلاف تبلیغ کا جومقصد اوپر بیان کیا ہے۔ اسے دیکھنے کے بعد یہ بات صاف ہو جاتی ہے کہ یہ ساری سرگرمیاں انگریز اور اس کے مصالح حکمرانی کو تقویت پہنچانے والی تھیں۔
حقیقت یہ ہے کہ اس زمانے میں انگریزی سامراج کو مختلف مسلم ممالک میں مسلمانوں کے جذبہ جہاد کی وجہ سے ان کی طرف سے شدید مزاحمت سے سابقہ پیش آرہاتھا۔ ادھر ہندوستان میں