نہایت سخت ہو گئی اور حد اعتدال سے بڑھ گئی۔بالخصوص پرچہ نور افشاں میں جو ایک عیسائی اخبار لدھیانہ سے نکلتا ہے،نہایت گندی تحریریں شائع ہوئیں اور ان مؤلفین نے ہمارے نبیﷺ کی نسبت نعوذ باﷲ ایسے الفاظ استعمال کئے کہ یہ شخص ڈاکو تھا۔(وغیرہ من الخرافات)تومجھے ایسی کتابوں اور اخباروں کے پڑھنے سے یہ اندیشہ دل میں پیدا ہوا کہ مبادا مسلمانوں کے دلوں میں جو ایک جوش رکھنے والی قوم ہے۔ ان کلمات کا کوئی سخت اشتعال دینے والا اثر پیدا ہو،تب میں نے ان جوشوں کو ٹھنڈا کرنے کے لئے صحیح اور پاک نیت سے یہی مناسب سمجھا اور عام جوش کو دبانے کے لئے حکمت عملی یہی ہے کہ ان تحریروں کا کسی قدر سختی سے جواب دیا جائے۔ تاکہ سریع الغضب انسانوں کے جوش فرو ہو جائیں اور ملک میں کوئی بدامنی پیدا نہ ہو۔ تب میں نے بمقابل ایسی کتابوں کے جن میں کمال سختی سے بدزبانی کی گئی تھی۔چند ایسی کتابیں لکھیں جن میں بالمقابل سختی تھی۔ کیونکہ میرے کانشنس (ضمیر) نے قطعی طورپرمجھے فتویٰ دیاکہ اسلام میں بہت سے وحشیانہ جوش رکھنے والے آدمی موجود ہیں۔ ان کے غیض وغضب کی آگ بجھانے کے لئے یہ طریق کارکافی ہوگا…مجھ سے پادریوں کے مقابل پر جو کچھ وقوع میں آیا،یہی ہے کہ حکمت عملی سے بعض وحشی مسلمانوں کو خوش کیا گیا۔‘‘ (تریاق القلوب ضمیمہ نمبر۳ ص،ب،ج، خزائن ج۱۵ص۴۹۰)
عیسائیوں اورآریا سماجیوں کے خلاف لکھنے اورمناظرے کرنے سے رفتہ رفتہ مرزا غلام احمدقادیانی، مجدد، مسیح موعود اوربالآخر نبی ہونے کے دعوے کرتے چلے گئے۔ لیکن انگریزوں سے ان کی وفاداری میں کوئی فرق نہ آیا۔ بلکہ انہوں نے انگریز کی وفاداری کو اپنے اوراپنے ماننے والوں کے ایمان کا جز اپنے الہام کا نتیجہ اور ایک مذہبی فریضہ قرار دیا۔اس سلسلے میں منیر رپورٹ ص۱۹۶ کے علاوہ قادیانی خلیفہ کے حسب ذیل اقتباسات قابل توجہ ہیں:
’’حضورعالی! ہماری فرمانبرداری مذہبی امور پر ہے۔ اس لئے اگر حکومت کی پالیسی سے قدرے اختلاف کریں ۔کبھی اس کے خلاف کھڑے نہیں ہوسکتے۔ کیونکہ اس صورت میں ہم خود اپنے عقیدے کی رو سے مجرم ہوں گے اورہمار ا ایمان خود حجت قائم کرے گا۔ حضور ملک معظم کی فرمانبرداری ہمارے لئے ایک مذہبی فرض ہے۔ جس میں سیاسی حقوق ملنے یا نہ ملنے کا کچھ دخل نہیں۔ جب تک ہمیں مذہبی آزادی حاصل ہے۔ ہم اپنی ہر چیز تاج برطانیہ پرنثار کرنے کے لئے تیار ہیں اورلوگوں کی دشمنی اور عداوت ہمیں اس سے باز نہیں رکھ سکتی۔‘‘
(قادیانی جماعت کا ایڈریس بخدمت ہزرائل ہائی نس پرنس آف ویلز ،مندرجہ اخبار الفضل ۲۰؍مارچ ۱۹۱۲ئ)
’’میں دعویٰ سے کہتا ہوںکہ تمام مسلمانوں میں اول درجہ کا خیر خواہ گورنمنٹ انگریزی کا