M
یہ اس بیان کا مکمل متن ہے جو جناب چودھری رحمت الٰہی صاحب قیم جماعت اسلامی پاکستان نے واقعہ ربوہ کی تحقیقاتی عدالت۱۹۷۴ء میں اپنے وکیل جناب ایم اے رحمان صاحب کی معرفت جناب جسٹس صمدانی کوپیش کیا۔اس بیان کے ساتھ قادیانی افسروں کے ناموں کی فہرست شائع نہیں کی جاسکی۔ کیونکہ اس کی اشاعت پرٹریبونل کی طرف سے پابندی لگادی گئی ہے۔
واقعہ ربوہ کو اس وقت تک نہیں سمجھاجاسکتا جب تک اسے قادیانیوں کی تاریخ اور مسلمانوں کے ساتھ ان کے رویے کے پس منظر میں رکھ کر نہ دیکھا جائے۔ قادیانیوں کے پیشوا مرزا غلام احمد قادیانی کا خاندان پہلے سکھوں کا وفادار رہا اوراس کے بعد اس نے اپنی وفا داریاں انگریزوں کے ساتھ وابستہ کرلیں۔ جس کا اعتراف خود مرزا قادیانی نے حسب ذیل تحریر وں میں کیا ہے:
’’میرا اس درخواست سے جو حضور کی خدمت میں مع اسماء مریدین روانہ کرتا ہوں۔ مدعا یہ ہے کہ اگرچہ میں ان خدمات خاصہ کے لحاظ سے جو میں نے اورمیرے بزرگوں نے محض صدق دل اور اخلاص اورجوش وفاداری سے سرکار انگریز کی خوشنودی کے لئے کی ہیں۔ عنایت خاص کا مستحق ہوں …… صرف یہ التماس ہے کہ سرکار دولت مدار ایسے خاندان کی نسبت جس کو پچاس سال متواتر تجربہ سے ایک وفادار پکے جانثار خاندان ثابت کر چکی ہے اور جس کی نسبت گورنمنٹ عالیہ کے معزز حکام نے ہمیشہ مستحکم رائے سے اپنی چٹھیات میں گواہی دی ہے کہ وہ قدیم سے سرکار انگریز کے پکے خیر خواہ اورخدمت گزار ہیں۔ اس خودکاشتہ پودے کی نسبت نہایت حزم و احتیاط اورتحقیق توجہ سے کام لے اوراپنے ماتحت حکام کو اشارہ فرمائے کہ وہ بھی اس خاندان کی ثابت شدہ وفاداری اور اخلاص کا لحاظ رکھ کر مجھے اورمیری جماعت کو ایک خاص عنایت اور مہربانی کی نظر سے دیکھیں۔ ہمارے خاندان نے سرکار انگریزی کی راہ میں اپنے خون بہانے اور جان دینے سے فرق نہیںکیا اور نہ اب فرق ہے۔ لہٰذا ہمارا حق ہے کہ ہم خدمات گزشتہ کے لحاظ سے سرکار دولت مدار کی پوری عنایات اورخصوصی توجہ کی درخواست کریں تاکہ ہر شخص بے وجہ ہماری آبرو ریزی کے لئے دلیری نہ کر سکے۔‘‘ (تبلیغ رسالت جلد ہفتم، مجموعہ اشتہارات ج۳ص۲۰،۲۱)
مرزاغلام احمد قادیانی شروع سے عیسائی پادریوں کے خلاف مناظروں کے لئے مشہور ہوئے۔ لیکن ان مناظروں اور عیسائیت کے رد میں ان کی تحریر و تقریر کامقصد وہ خود اس طرح بیان کرتے ہیں:
’’میں اس بات کا بھی اقراری ہوں کہ جب بعض پادریوں اورعیسائی مشنریوں کی تحریر