کو جاننا۔جیسا کہ وہ فی الواقع موجود ہے اوراس سے محبت کرنا اوراس کی سچی اطاعت میں اپنے وجود کو لگانا جیسا کہ شرط اطاعت ومحبت ہے۔ دوسرا مقصد یہ ہے کہ اس کے بندوں کی خدمت و ہمدردی میں اپنے تمام قویٰ کو خرچ کرنا اور بادشاہ سے لے کر ادنیٰ انسان تک جو احسان کرنے والا ہو،شکرگزاری اوراحسان کے ساتھ معاوضہ دینا۔اسی لئے ایک سچا مسلمان جو اپنے دین سے واقعی خبر رکھتا ہو۔اس گورنمنٹ کی نسبت جس کی ظل عاطفت کے نیچے امن کے ساتھ زندگی بسر کرتا ہے اور ہمیشہ اخلاص اور اطاعت کا خیال رکھتاہے۔‘‘
کہئے!اب کیا حکم ہے؟اس مرزا کے لئے جس کے دین میں صرف دوباتیں ہیں۔ ایک خدا کو جاننا ،دوسرے حکومت برطانیہ کی اطاعت۔اس اصغر مہدی نے تو صرف ایک ہی بات بتائی تھی۔جس کی تاویل بشرط ایمان ممکن تھی۔ مگر انہوں نے تو پورا کلمہ دونوں جزوالابیان کردیا اور اپنا حقیقی اندرونی مذہب ظاہر کردیا۔ کیااس کے دجال اصغر ہونے میں اب بھی قادیانیوں کو شبہ ہو سکتا ہے؟میرا مشورہ اورصحیح مشورہ یہی ہے کہ مرزا کو ان وجوہ کی بناء پر جو اس نے اپنے ذاتی حالت مرض میں لکھے۔ مرزائی لوگ اسے مرفوع القلم سمجھ کر اس کا پیچھا چھوڑ دیں۔ یہ مرزا قادیانی کے لئے نہ سہی پر ان کے لئے تو مفید ثابت ہوگا۔ مرزا نے اپنی نبی اورمسیح موعود برحق ہونے کی بڑی زبردست دلیل یہ بیان کی ہے کہ کسی جھوٹے مدعی نبوت نے اتنی لمبی زندگی نہیں پائی،جتنی مرزا نے اور یقینی بات ہے کہ جھوٹے مدعی کو خدا مہلت نہیں دیتا۔
(عسل مصفیٰ ص۵۰) ’’جہاں تک تاریخ گواہی ہے۔ ہمیں یہی ثابت ہوتا ہے کہ کسی مدعی نبوت کو جس پر کوئی وحی من جانب اﷲ نہ ہوتی ہو ،اورکہے مجھے وحی ہوتی ہے اوراپنی مفتریات کو لوگوں کے آگے پیش کرے اورانہی بناء پر لوگوں کو دعوے کرے ۔تواتنی مہلت نہیں دی گئی جتنی راست باز خدا کے مرسل کوہوتی ہے۔ اگر اﷲ تعالیٰ کی طرف سے کوئی معیار نہ ہوتا تو خلق خدا بکثرت ضلال اورگمراہی کے کنویں میں ہلاک ہوتی۔لیکن اس نے تو اپنی سنت قدیمہ سے مہر لگادی ہے کہ کذاب ہرگز وہ عمر نہیں پاسکتے جو صادقوں کو ملتی ہے۔
یہ تو مرید کی ہوئی جواول درجہ کا صحابی ہے۔خود مرزا قادیانی کی زبانی سنئے۔ (انجام آتھم ص۵۰،خزائن ج۱۱ص۵۰) ’’کیا یہی خدائے تعالیٰ کی عادت ہے کہ ایسے کذاب اوربے باک مفتری کو جلد نہ پکڑے۔ یہاں تک کہ اس افتراء پربیس برس سے زیادہ گزر جائے۔ سو ایک تقویٰ شعار آدمی کے لئے یہ کافی تھا کہ خدا نے مجھے مفتریوں کی طرح ہلاک نہیں کیا۔ بلکہ میرے ظاہر وباطن اور میرے جسم اورمیری روح پر وہ احسان کئے جنہیں میں شمار نہیں کر سکتا۔میں جوان تھا جب خدا