جلد اس بیماری کا برانگیختہ ہونا بچشم خود مشائدہ کیا ہے۔ وہ اگرچہ بباعث ناواقفیت میرے الہامات پر یقین نہ رکھتے ہوں۔ لیکن ان کو اس بات پر بکلی یقین ہوگا کہ مجھے فی الواقعہ یہی مرض لاحق ہے۔ ڈاکٹر محمد حسین صاحب کو لاہور کے آنریری مجسٹریٹ بھی ہیں اوراب تک میرا علاج کرتے ہیں۔ان کی طرف سے ہمیشہ یہی تاکید ہے کہ دماغی محنتوں سے تاقیام مرض بچنا چاہئے۔‘‘
مرزا کی گزشتہ عبارتوں سے ،مرزا کا یہ دعویٰ ظاہر ہوچکا ہے کہ خدانے اس کو تبلیغ پر مامور کیااورنبی بن کر آیا اوراس عبارت سے یہ بات واضح ہوگئی کہ باوجود مرزا کی دلی خواہش اور وعدہ واعلان کے خدا نے اس کو روک کرجھوٹا مشہور کرادیا۔ ضعف دماغی کا تسلسل اور مدہوشی کے دورے ،تبلیغ کے لئے جانا اور بالقصد وارادہ بغیر تبلیغ کئے خائب وخاسر واپس ہونا ۔یہ سب کچھ معلوم ہونا مگر اس سے بڑھ کر عبرت کا مقام یہ ہے کہ کسی کو کسی چیز سے روکنا ،یا تو دنیاوی ضرر کی وجہ سے ہوتا ہے۔ یا دینی ضرر کی وجہ سے۔ اگر دینی نقصان ہے تو اسے روکنے والا خدائے تعالیٰ ہے یا انبیاء علیہم السلام اوران کے نائبین اوراگر دنیاوی نقصان ہے یابدنی نقصان ہے یا مالی ۔اگرمالی نقصان ہے توحکام اورمنتظمین دنیا اس سے روکتے ہیں اور اگر بدنی نقصان ہے تو حکیم اورڈاکٹرز روکتے ہیں۔ اگر مریض طبیب کی ہدایات پر نہیں کاربند ہوتا تو اپنی جان کو خطرہ میں ڈالتا ہے اورمرض ترقی پکڑ جاتا ہے اوراگر خدا ورسول کا حکم نہیں مانتا اورمنکر ہوجاتا ہے ۔بلکہ بغاوت کے لئے خلاف حکم کرنے کوکھڑا ہوجاتا ہے تو باغی منکر کافر،مرتد کہلا کر اپنے کردار کی سزا بھگتنے کو جہنم میں ڈال دیا جاتا ہے۔ مرزا خود لکھتا ہے کہ خدا نے اس کو تبلیغ سے روکا ۔ مگر یہ نہ رکا۔ صرف علی گڑھ میںکسی مصلحت سے زبان بند رکھی۔ مگر پھر وہی حرکت جاری رہی۔انبیاء کرام نے روکا مگر اس نے نہ مانا ۔ یہ دینی حیثیت سے روکنا جو خداورسول نے روکا اورمرزا منکر وباغی بن کر کافر ومرتد ہوا۔ پھر دنیاوی حیثیت سے ڈاکٹر نے روکا اورسخت تاکید کی ۔مگر مرزا نہ رکا۔ اس صورت میں مرض بڑھتا گیا اور اس بدپرہیزی اورحکم عدولی کی وجہ سے دیوانہ ہوگیا۔ یہ کوئی قیاس واٹکل نہیںمرزا کی ذاتی تحریر ہے۔ اس نے اپنا حال بلاتقیہ یہاں پر ظاہر کردیا۔ ہے کوئی قادیانی کان جو سن سکے؟
صاحب عسل مصفیٰ نے اصغر حسین مہدی بننے والے کا اس جملہ پربڑا مذاق اڑایاکہ کلمہ صرف( لاالہ الاﷲ) ہے۔ذرا مرزا قادیانی کی جھولی کھول کر دیکھئے۔دیکھئے (تحفہ قیصریہ ص۲۹،خزائن ج۱۲ص۲۸۱)’’یہ بھی عرض کر دینے کے لائق ہے کہ اسلامی تعلیم کی رو سے ،دین اسلام کے حصے صرف دو ہیں۔ یا یوں کہہ سکتے ہیں کہ یہ تعلیم دو بڑے مقاصد پر مشتمل ہے۔ اول ایک خدا