قلعہ کے طور پر ایک قصبہ اپنی سکونت کے لئے آباد کیا۔ جس کا نام اسلام پور ہے۔جو اب قادیان کے نام سے مشہو رہے۔اس قصبہ کے گرد اگرد ایک فصیل تھی۔جس کی بلندی بیس فٹ کے قریب ہو گی اور عرض اس قدرتھا کہ تین چھکڑے ایک دوسرے کے برابر چل سکتے تھے۔ چار بڑے بڑے برج تھے۔ جن میں قریب ایک ہزار کے سوار وپیادہ فوج رہتی تھی… شاہان دہلی کی طرف سے اس تمام علاقہ کی حکومت ہمارے بزرگوں کو دی گئی تھی… یہ طرز حکومت اس وقت تک قائم وبرقرار رہی کہ جس وقت تک پنجاب کاملک دہلی کے تخت کا خراج گزار رہا ۔ لیکن بعد اس کے رفتہ رفتہ چغتائی گورنمنٹ میں بباعث کاہلی وسستی وعیش پسندی ونالیاقتی، تخت نشینوں کے بہت سا فتور آگیا اور کئی ملک ہاتھ سے نکل گئے ۔ انہی دنوں میں اکثر حصہ پنجاب کاگورنمنٹ چغتائی سے منقطع ہو گیا۔ یہ ملک ایک ایسی بیوہ عورت کی طرح ہوگیا۔ جس کے سر پر کوئی سرپرست نہیں اورخدائے تعالیٰ کی عجوبہ قدرت نے سکھوں کی قوم کو جو دہقان بے تمیزتھی۔ترقی دیناچاہا۔چنانچہ ان کی ترقی اورتنزل کے دونوں زمانے پچاس برس کے اندر ختم ہوکر ان کا قصہ بھی خواب وخیال ہوگیا… انہیں ایام میں بفضل واحسان الٰہی اس عاجز کے پرداداصاحب مرزاگل محمد مرحوم اپنے تعلقہ زمینداری کے ایک مستقل رئیس اور طوائف المولک میں سے بن کر ایک چھوٹے سے علاقہ کو جو صرف چوراسی یا پچاسی گاؤں رہ گئے تھے۔کامل اقتدار کے ساتھ فرمانروا ہوگئے اوراپنی مستقل سیاست کاپورا پورا انتطام کرلیا اور دشمنوں کے حملے روکنے کے لئے کافی فوج اپنے پاس رکھ لی اورتمام زندگی ان کی اسی حالت میں گزری کہ کسی دوسرے بادشاہ کے ماتحت نہیں تھے اور نہ کسی کے خراج گزار۔بلکہ اپنی ریاست میں خود مختار حاکم تھے… اور پانچ سو کے قریب قرآن شریف کے حافظ وظیفہ خوار تھے… اس زمانہ میں قادیان میں وہ نور اسلام چمک رہا تھا کہ اردگرد کے مسلمان اس قصبہ کو مکہ کہتے تھے… بالآخر سکھوں نے قادیان پربھی قبضہ کرلیااورداد اصاحب مرحوم مع اپنے تمام لواحقین کے جلاوطن کئے گئے… پھرانگریزی عہد سے کچھ پہلے یعنی ان دنوں جب رنجیت سنگھ کا عام تسلط پنجاب پرہوگیاتھا۔اس عاجز کے والدصاحب یعنی مرزاغلام مرتضیٰ مرحوم دوبارہ اس قصبہ میں آکر آباد ہوئے اور پھر بھی سکھوں کی جو روجفا کی نیش زنی ہوتی رہی۔ان دنوں میں ہم لوگ ایسے ذلیل وخوار تھے کہ ایک گائے کا بچہ جودویاڈیڑھ روپیہ کاآسکتا تھا۔صدہادرجہ ہماری نسبت بنظر عزت دیکھاجاتاتھا۔‘‘
مرزا خدا بخش مصنف عسل مصفیٰ تو مر گئے۔ مگر ابھی بہت سے قادیانی اس زمین پرچل پھر رہے ہیں۔ دونوںمرزا کی تحریریں ملائیں اور دونوں مہدی کو ایک ترازو ایک ہی بٹہ سے تول