سے خون پھوٹ نکلے گا۔ یہی حالت ہوگی۔ جس میں کل کے کل انبیاء مع حضرت مسیح اورمحمدﷺ کے از خود رفتہ ہوں گے۔ اﷲتعالیٰ ان کی دل جوئی فرمائے گا۔یہاں تک کہ یہی بہترین اور برترین جماعت شفاعت گنہگار ان کا منصب حاصل کرے گی۔ جن میں شفاعت عظمیٰ اور شفاعت عامہ کی کرسی حضرت ختم الرسل ﷺ کے لئے مخصوص ہو گی۔ اس تقریر کے بعد پھر تکلیف کر کے قیامت کے دن کے اس منظر کو سامنے رکھیں۔ اﷲتعالیٰ نے مسیح کو مخاطب کر لیا ہے۔ خطاب طول طویل ہے ۔ جس سے سورئہ مائدہ کے آخری دو رکوع بھر گئے ہیں اورجواب حضرت مسیح کا بہ نسبت سوال کے بہت مختصر ہے۔ اس دوبارہ کلام الٰہی کو دیکھنے سے آپ بآسانی سمجھ لیں گے کہ عام خطاب اوراس کا جواب۔ پھر خاص خطاب اوراس کا جواب۔ دونوں میں کیا مناسبت ہے۔اس وقت آپ میرا بے حد احسان مانیں گے۔
اب لیجئے! تیسرے شبہ کا جواب۔ جو آپ نے فرمایا ہے کہ چونکہ آنحضرت ﷺنے اپنا جواب بھی وہی فرمایا جو جواب حضرت مسیح علیہ السلام دیں گے اوریقینا آپ وفات پاچکے ہیں۔ پس یقینا ثابت ہوا کہ آپ پس مرد ن جی کر جواب دیں گے۔ اس مشارکت جوابی سے لازم آیا کہ حضرت مسیح علیہ السلام مر کر جی کر یہ جواب دیں گے۔
سبحان اﷲ!ہمارے ذہن ناقص کی رسائی اس کلام اوراستدلال کے علو اوررفعت تک نہیں ہو سکتی۔ میری عقل مختصر کو اتنا حوصلہ نہیں کہ یہ معلوم کر سکوں کہ اس وقت آپ کا روئے سخن کس طرف ہے۔ یعنی اپنے رسالے کا یہ خاص جملہ کن کے سمجھانے کے لئے لکھا ہے۔ اگر غیر مسلم آپ کے مخاطب ہیں تو بلا سے، اوراگر یہ فہائش آپ کی مسلمانوں کو ہے تو محض تحصیل حاصل ہے۔ کو ن بد بخت آپ کو ملاتھا جو ناحق آپ کو ستاگیا کہ حضرت مسیح علیہ السلام کا یہ جواب ان کی اسی زندگی میں ہو گا۔
آپ خاطر جمع رکھئے کہ مشرق سے مغرب تک کے مسلمان جناب سالار انبیاء سے لے کر آج تک کے مسلمان اس پر متفق ہیں کہ جواب مذکورہ حضرت مسیح ابن مریم کا مرکر جینے کے بعد ہو گا۔ اب وقت زیادہ ہو گیا ۔اس سے زیادہ میں آپ کی سمع خراشی کرنا نہیں چاہتا۔ ذرا دو باتیں رخصت ہوتے ہوتے سنتے جائیں۔
شایداطراف پنجاب میں یہ دستور ہوکر مر کر جی اٹھنے کے بعد کے کلام کی اگر کوئی زندہ آدمی نقل کرے ۔مثلاًاہل جنت کا کلام:’’ الحمد ﷲ الذی ھدا نالھذا وما کنا لنھتدی لولا ان ھد انا اﷲ(الاعراف:۴۳)‘‘ بطور شکر علی الاسلام کے کہنے لگے ۔ تو آپ کے گردونواح کے لوگ اس کی نماز جنازہ اورتجہیز وتکفین کے لئے حاضر ہو جاتے ہوں گے ہوسکتا ہے۔