ہر ملکے وہر رسمے
ہمارے ہاں ایسا دستور نہ ہونے سے پوچھنا پڑا۔ ذراٹھہرئے بات ختم ہوئی جاتی ہے۔ یہاں تک تو آپ کے نقلی دلائل کا جواب ہوا ۔ اب تھوڑا ساحضور کی عقلی جحت کے لئے بھی لیتے جائیے۔
آپ کی عقل اس کو محال سمجھتی ہے کہ سدا جینے کا رتبہ پانے کا اگر کوئی مستحق ہوتا تو جناب رسالت مآب محمدﷺ علیہ الف تحیۃ والثناء اس کے مستحق ہوتے۔
کاش میں نے آپ کے جواب کی تیاری نہ کی ہوتی اورپہلے ہی سوچ لیا ہوتا کہ ایسی پادر ہوا باتوں کا بھی ہماری محفل میں گزر ہو گا۔
میاں!جب تم آپ ہی تسلیم کر رہے ہو کہ وفات پانا نبوت ورسالت کے منافی نہیں اور نہ زندہ مع الجسم آسمان پر اٹھ جانا نبوت اوررسالت کو لازم ۔ (دلیل المحکم ص۴)
یہاں پر آپ کے رسالے کی عبارت اختصار کے ساتھ لکھی گئی ۔میں کہتا ہوں کہ کسی خبطی سے آپ کو پالا پڑ گیا تھا جس نے مسلمانوں کے معتقدات کی غلط خبریں دے کر آپ کو پریشان کر گیا۔ واقعی آپ حق بجانب ہیں۔ ان غلط خبروں کی وجہ سے آپ درہم برہم ہو رہے ہیں۔ آپ اطمینان رکھیں کوئی مسلمان حضرت مسیح علیہ السلام کے سدا جینے کامعتقد نہیں۔ کوئی مسلمان وفات پانے کو نبوت ورسالت کے منافی نہیں مانتا۔ کوئی مسلمان زندہ مع الجسم آسمان پر اٹھ جانے کو لازمہ رسالت نہیں مانتا۔ کوئی مسلمان عمر درازی کو کمالات نبوت سے نہیں مانتا۔محض طویل العمر ہونے کو کمالات نبوت سے جب تعلق ہی نہیں تو ایسی چیز کے لئے جناب ختم رسالت نے کب آپ کو وکیل بنایا۔جس میں آپ حضرت مسیح علیہ السلام سے منازعت کررہے ہیں۔ مدعی سست گواہ چست۔
ص۲۱ پر آپ نے اشہب قلم کو یوں جولانی بخشی ہے کہ قرآن شریف کے معنی اس کے مروجہ اورمصطلحہ الفاظ کے لحاظ سے کرے ورنہ تفسیر بالرائے ہوگی۔ آپ کے اس قول سے تمام اسلامی دنیا آپ کو مبارک باد دیتی ہے۔ خدا تعالیٰ اسی روش پر آپ کو اورہم کو رکھے۔ لیکن نور چشما مرزاقادیانی ملعون کی قبر میں ہڈیاں آپ کو کوس رہی ہوں گی کہ یہ ناخلف ہماری تمام محنت برباد کر رہا ہے۔ ہم تو جیسے مسیح بنے تب سے قرآن کے معنے مروجہ مصطلحات کے خلاف ہی کرتے رہے۔ ہاں ہاں خوب یاد آیا ۔ میں نے اپنے رسالے کو صفحہ ۱۷پر مرزائیوں کو جو الزام دیا ہے کہ وہ قرآن کریم کو مقولات مرزا کے موافق کیا کرتے ہیں۔ اس الزام سے آپ تو بری ہوگئے۔ والسلام!