جیسا ان شرک آلود مسلمانوں کو کوئی حق نہیں کہ کسی ہندو، عیسائی پر طعنہ زنی کریں۔ ایسا ہی ان مشرک یہودیوں کو بھی کوئی حق نہیں کہ وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے اب اﷲ کہلانے پر خفا ہوتے۔ مگر انہوں نے بلااستحقاق یہ کام کیا۔ جیسے آج کل کے نیم مسلم لوگ بلا استحقاق ہندوؤں وغیرہ کو مشرک کہہ رہے ہیں۔ امید ہے کہ ایک تاریخی واقع سے ان دوشبہوں کاازالہ اتنا ہی بس ہوگا۔ ورنہ یار باقی صحبت باقی۔
ہم نے اوپر کے صفحات پر آپ کے خفا ہونے کی دوباتیں کہی تھیں۔ کیا کیا جائے ۔سر دست کوئی لفظ نہ ملا تو یہی کہہ دیا۔ قرآن وتاریخ ،دونوں سے آپ ناواقف ہیں۔ خدا نہ کرے کہ آپ خفا ہوں۔ ان میں سے تاریخی ناواقفی کا مسئلہ بتا کر قرآنی ناواقفی کو ہم بتانا چاہتے ہیں۔ سنئے اور لٹھ نہ اٹھائیے۔
قرآنی اسلوب بیان سے وہی شخص واقف ہو سکتا ہے جو ہر ہر مقام پرٹھہرے اور تمام مضامین خواہ وہ فقہی ہوں یا تاریخی۔ امثال ہوں یاغیر۔ سب کوغور سے پڑھے ۔ پھر سب کی تطبیق میں اجتہاد کرے۔ اپنے مذہبی مسلمات کو ان پرعرض کرے۔ ان میں سے جس مسئلہ مذہبی کو مخالف کتاب مجید کے پائے چھوڑتا جائے ۔ نہ یہ کہ کتاب مجید کو اپنے مذہب کے سانچے میں ڈھالتا جائے۔ ہزار سردردیوں اور خون پسینہ ایک کرنے کے بعد قرآنی غوامض کے درشہوار کوپائے گا۔
جو آپ الزام پرانی فیشن کے مسلمانوں کودیتے ہیں کہ وہ لوگ حدیثوں ، تفسیروں اور مذہبی مقتداؤں کے کلام کے تابع آیات قرآنیہ کو کرتے ہیں۔جیسے بن سکے توڑ مروڑ کے اپنے مسلمات اورمعتقدات کے خلاف قرآن کو ایک قدم چلنے نہیں دیتے یہ بے شک ۔لیکن پیارے مرزائی دوست اس الزام سے آپ ہی بچ نہ سکے ۔ آپ چراغ لے کر ڈھونڈ و تو ان ہزاروں مرزائیوں میں سے ایک بھی ایسا نہ ملے گا جس نے مرزاقادیانی ملعون کی مرضی کے خلاف قرآن پاک کو ایک انچ بھی ادھر ادھر کر وٹ بدلنے دی ہو۔
پھرکاناکانے کو اورلنگڑا لنگڑے کو کس چیز کا عار دلاتا ہے۔ آپ کو اگر اپنی مذہبی اشاعت کے علاوہ احوال قیامت کے دریافت کرنے کا موقع ملا ہو تو بآسانی سمجھ جائیں گے کہ اس دن کا نام یوم الضرع الاکبر کہا گیاہے۔ اس دن تمام ابنیاء صدیقین جن کے رتبے سے بالا تر کوئی رتبہ نہیں ہے۔ نفسی نفسی اوررب سلم رب سلم ۔ پکارتے ہوں گے ۔ :’’وتری الناس سکاریٰ وما ھم بسکاریٰ ولکن عذاب اﷲ شدید (الحج :۲)‘‘ جس کا شر مستطیر ہوگا۔ ہر نیک وبد پر کم وبیش اس کا اثر پہنچے گا۔ ایسی گھبراہٹ ہو گی کہ بیٹے کو باپ اور جورو کو خاوند بھول جائے گا۔ سب نظر