کہئے ان شقاوتوں کا کوئی علاج ہے؟ میں کہتا ہوں اس گروہ کے بقایا سقایا ایران اورہندوستان کے بعض مقاموں میں اب تک موجود ہیں۔ یہ خیال غلط ہے کہ وہ بالکل ناپید ہوگئے۔ غور فرمائیے کہ جس مرض کا علاج شیر خدا سے اپنی حکومت اورخلافت کے ہاتھوں سے نہ ہوسکا۔وہ بیماری جناب مسیح کی زبانی نصیحتوں سے کیونکر دور ہو سکتی؟
اب رہا دوسرا شبہ ۔وہ یہ کہ جب تو نے اقرار کر لیا ہے کہ یہودی پیروں اورشہیدوں کو مشکل کشاء اورحاجت روا مانتے تھے ۔نیز قرآن کریم بھی شہادت دے رہا ہے کہ انہوں نے حضرت عزیر علیہ السلام کو خدا کا بیٹا کہا ۔ایسی حالت میں کیونکر مانا جائے کہ یہودیوں نے جناب مسیح کو صرف ابن اﷲ ہونے کے شبہ میں مارڈالنا چاہا۔کیونکہ جس قوم میں جس بات کی عادت ہو جاتی ہے وہ بات ان کو غصہ نہیں دلاتی۔ اس شبے کے ازالے کے لئے کسی کتاب کا حوالہ دینے کی ضرورت نہیں۔ اپنے ہی شہروں،بستیوںکودیکھو کہ جہاں لاکھوں قبریں اورچلے اورتعزیے پوجے جاتے ہیں۔ یہی مسلمان قرآن وحدیث اورفقہ اوراصول کے ماننے والے۔ گورپرست چلا پرست رشدّہ پرست ۔پیر پرست، زندہ پرست، مردہ پرست۔زن پرست۔ زر پرست۔ آشنا پرست لاکھوں نہیں کروڑوں پڑے ہیں۔ مصیبت کے وقت یاغوث ۔دشمن پر حملہ کرتے وقت یا علی۔دریا کے سفر میں یاخواجہ خضر۔ ان کے شرک میں کسی ادنیٰ ذی شعور کو بھی کچھ تامل ہوگا؟ ہرگز نہیں۔ مگر باوجود اپنی اتنی ردی حالت کے ہندوؤں کی بت پرستی پر خفا ہورہے ہیں۔ پارسیوں کی آتش پرستی پر ناراض ہیں۔ عیسائیوں کی مسیح پرستی پر برسر جنگ ہیں۔ مشرکین مکہ پر ان کے لات منات کے ماننے پر لعنت بھیج رہے ہیں۔ حالانکہ ان تمام قوموں نے ان شرک میں آلودہ مسلمانوں سے بڑھ کر کوئی کام نہیں کیا۔ جو یہ کرر ہے ہیں وہی وہ کرتے ہیں۔ پھر خفا ہونے کی وجہ کیا۔ میاں حالی مرحوم نے کیا ہی اچھا نقشہ کھینچا ہے۔ جس میں ان نام کے مسلمانوں کی پوری تصویر مع خد وخال کے نظر آرہی ہے:
کرے غیر گر بت کی پوجا تو کافر
جو ٹھہرائے بیٹا خدا کا توکافر
کہے آگ کو اپنا قبلہ تو کافر
کواکب میں مانے کرشمہ توکافر
مگر مومنوں پرکشادہ ہیں راہیں
پرستش کریں شوق سے جس کی چاہیں
نبی کو جو چاہیں خداکر دکھائیں
اماموں کا رتبہ نبی سے بڑھائیں
مزاروں پہ دن رات نذریں چڑھائیں
شہیدوں سے جاجا کے مانگیں دعائیں
نہ توحید میں کچھ خلل اس سے آئے
نہ اسلام بگڑے نہ ایمان جائے