اﷲ تعالیٰ: ’’ذالک جزاء ھم جھنم بما کفر واواتخذو اایتی ورسلی ھزوا‘‘
اوریہ امر آنحضرت ﷺ کی کمال فصاحت وبلاغت کو داغ لگانے کے لئے کمال شیطنت ہے اورآپ کی فصاغت وبلاغت جس طرح موافق ومخالف کے نزدیک مشہور ہے۔اسی طرح حدیث صحیح میں بھی ثابت ومذکور ہے:’’ بعث بجوامع الکلم…الخ ۔ متفق علیہ اور فضلت علی الانبیاء بست اعطیت جوامع الکلم رواہ مسلم کمافی المشکوٰۃ فی باب فضائل سید المرسلین صلوٰۃ اﷲ وسلامہ علیہ وعلی الہ واصحابہ اجمعین وفی الحدیث المتفق علیہ۰ایضاً ان رسول اﷲﷺ لم یکن یسردالحدیث کسرد کم کان یحدث حدیثا لوعدّہ عاد لاحصاہ کمافی المشکوٰۃ فی باب اخلاقہ ﷺ وفی صحیح البخاری کان النبیﷺ اذاتکلم بکلمۃ اعادھا ثلثا حتی تفھم عنہ کمافی کتاب العلم من المشکوٰۃ وفی صحیح مسلم فی خطبۃ النبی ﷺ امابعد فان خیر الحدیث کتاب اﷲ وخیر الھدی ھدی محمدﷺ‘‘
پس یہ صاف ظاہر ہے کہ ان احادیث صحیحہ مذکور ہ سے آنحضرت ﷺ تقریر تعلیم وافہام تفہیم میں سب انبیاء علیہم السلام پر فوقیت رکھتے تھے۔ تو آپؐ کی کلام کے مقابلے میں محدثین ملہمین کی عبارات الہامات کی کیا حقیقت رہی۔ چہ جائیکہ الہامات اس محدث فی الدین مرتد بالیقین کے ۔معاذاﷲ !
اور تعالیٰ نے داؤدعلیہ السلام کے حق میں فرمایا ہے:’’واتیناہ الحکمۃ وفصل الخطاب ۰قال ابن عباس الکلام کمافی المعالم{یعنی عطا کی ہم نے داؤد علیہ السلام کو دانائی اورکھلی بات کرنی۔جس کو ہر ایک بلاتکلف سمجھے۔}پس ہمارے حضرت محمدؐ بالاولیٰ اس کمال میں اعلیٰ واولیٰ ہیں۔ :’’لقولہ علیہ السلام فضلت علی الانبیاء …الخ وقولہ علیہ السلام خیر الھدی ھدی محمدﷺ۔‘‘مختصر معانی میں ہے ۔’’وفصل الخطاب، ای الخطاب المفصول البیّن الذی یتبینہ کل من یخاطب بہ ولایلتبس علیہ ۰وھکذافی المطول‘‘
کفر اعظم قادیانی
’’علماء مفسرین ومحدثین جو ظاہر علم تفسیر وحدیث کا ہمیشہ پڑھتے پڑھاتے رہے ہیں۔ یہ