ابن اسحق ان المرادمن ذالک مابعث بہ عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام من احیاء الموتی وابراء الاکمہ والابرص وغیر ذالک من الاسقام ، وفی ہذا نظر وابعد منہ ماحکاہ قتادہ عن الحسن البصری وسعید بن جبران الضمیر فی انہ عائد علی القران بل الصحیح انہ عائد علی عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام فان السیاق فی ذکر ہ ثم المرا د بذالک نزولہ قبل یوم القیامۃ کما قال تبارک وتعالیٰ وان من اھل الکتاب الالیؤمنن بہ قبل موتہ ای قبل موت عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام ثم یوم القیامۃ یکون علیھم شہیدا ۰ویؤید ھذا المعنی القراۃ الاخریٰ انہ لعلم للساعۃ ،ای امارۃ ودلیل علی وقوع الساعۃ ۰قال مجاھد وانہ لعلم للساعۃ ای آیۃ للساعۃ خروج عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام قبل یوم القیامۃ وھذا روی عن ابی ھریرۃ وابن عباس وابی العالیۃ وابی مالک وعکرمۃ والحسن وقتادہ والضحاک وغیر ھم وقد تواترت الاحادیث عن رسول اﷲﷺانہ اخبر بنزول عیسیٰ علیہ السلام قبل یوم القیامۃ اماما عادلا وحکما مقسطا (انتہی)
جب تک یہ دعویٰ الہام کا اس نے نہیں کیاتھا۔ اس کا اعتقاد بھی اس مسئلہ میں موافق اہل اسلام کے تھا۔ جیسا کہ (براہین احمدیہ ص۴۹۸،۴۹۹، خزائن ج۱ ص۵۹۳ حاشیہ) میں مرقوم ہے۔ پس ظاہر ہے کہ قرآن وحدیث کی حقیقت پر ایمان لانے سے الہام ہی اس کو مانع ہوا۔
جیساکہ اس نے خود آپ تصریح کی ہے( ص اوّل توضیع المرام میں) تیرے اس رائے کے شائع ہونے کے بعد جس پر میں تنبیہات الہام سے قائم کیا گیا ہوں…الخ ۔تو الہام ہی قرینہ مجاز کا اس کے زعم میں ثابت ہوتاہے اور کوئی قرینہ عقلی اہل اسلام کے طور پرنہیں ہے۔پس لازم آئے گا کہ قرینہ مجاز کاتیرہ سو برس بعد آنحضورﷺ کے قائم ہوا اورآپؐ کی کلام ناتمام کو تمام کیا اور مفید مطلب واقعی کے بنایا۔ ورنہ پہلے وہ کلام مفید خلاف مطلب کے تھی۔ فصاحت وبلاغت کجا بلکہ ضلالت درضلالت تھی۔ یہ تمسخر منافقانہ اوراستہزاء نہیں تو کیا ہے؟ قال
(بقیہ حاشیہ گذشتہ صفحہ) چنانچہ ابوہریرہؓ،ابن عباس ؓ اور ابوالعالیہ ، ابومالکؓ، عکرمہ، حسن ،قتادہ ، ضحاک وغیرہ سے مروی ہے اورآنحضرتﷺ سے متواتر احادیث اس بات میں آچکی ہیںکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام قیامت سے پہلے امام عادل ہو کر آئیں گے۔