’’توفی‘‘ کا ترجمہ ہے۔ اگر یہی توفی یا موت جو ہم کو اورتم کو ہمیشہ بستر پر لیٹتے ہی آجاتی ہے۔حضرت مسیح علیہ السلام کو بھی آگئی تو اس موت سے انکار کرنے والا پاگل خانے کامستحق ہے۔ ہم خوشی کے ساتھ قبول کرتے ہیں کہ اس موت میں جناب مسیح ایک بار نہیں بلکہ ہزاربارمرچکے ہیں۔ آپ جس موت کے آرزو مند ہیں وہ یہ موت نہیں جو ہم کو تم کو ہمیشہ آیاکرتی ہے۔ اب ہم اپنی اس تحریر کی اوّل سطروں سے دست کش ہوتے ہیں اورامید رکھتے ہیں کہ آئندہ ہم توفی کامعنی موت ہی کریں گے۔کیونکہ اوّل تو اس معنی کو ہمارے مرزائی دوستوں نے قبو ل کر لیا۔ دوسرے یہ کہ یہ معنی بہ نسبت مرزائی حضرات کے ہم کو زیادہ مفید ہیں۔ دل ماشاد چشم ماروشن۔ اچھا تشریف لائیے اورآپ کے دوسرے استدلال کا حل سنئے۔
دوسرا استدلال آپ کا سورئہ مائدہ کی مذکورہ آیت سے یہ ہے کہ مسیحوں کی مسیح پرستی سے حضرت مسیح علیہ السلام کا خدا کے سامنے لاعلمی کااظہار کرنا اوراس لاعلمی کو بوجہ موت کے بتانا ۔یعنی حضرت مسیح یوں گزارش کریں گے کہ خدایا جب تو نے مجھے مارڈالا تو پھر تو ہی ان کے حال سے خبردار تھا۔
بہت ٹھیک آپ کسی عدالت کے وکیل یامختار رہ چکے ہیں۔ مگر دوست قرآن سے اور تاریخ سے آپ خفا نہ ہو آپ بے خبر ہیں۔ آپ کو تاریخ سے اتنا پتہ تو ملا کہ یہودیوں کا اعتقاد مصلوب ومقتول کی نسبت ایسا اورویسا تھا ۔اس لئے اﷲ رب العزت نے ان کے مصلوب یا مقتول ہونے کی نفی فرمائی۔ لیکن یہ پتہ ایسا ہی ہے جیسا کوئی مناظرے کے وقت اپنے حریف کو کوئی مضمون دکھا دیتا ہے ۔ حریف مسکین اس صحیح کتاب کے اتنے ہی مضمون کا عالم ہوتا ہے جتنا اس کو بوقت مناظرہ دکھایا گیا اورہم کو تو اس میں بھی کلام ہے کہ آیا یہودیوں کا یہ اعتقاد تھا کہ وہ سبھی مقتولوں اورمصلوبوں کو ملعون سمجھا کرتے تھے۔ یا صرف قادیانی متنبی کاخانہ ساز خیالی پلاؤ ہے ۔ جو محض احمقوں اورنادانوں کو جال میں پھانسنے کے لئے پکایاتھا۔
چونکہ پنجاب اوروسط ہند میں یہودی نہیں ہیں۔ اس لئے وہاں کے باشندوں پر یہ جادو چل جاتا ہے ۔ لیکن ہم لوگ جنوبی ہند میں رہتے ہیں ۔ یہودیوں کے مساجد ومنابر، ان کی شادی غمی سب ہماری نظروں کے سامنے ہے۔ ہم تو ان کو ایسا ہی پاتے ہیں جیسا اس آخر زمانہ میں بے علم مسلمانوں نے پیروں اورشہید وں سے حاجتیں مانگنا اوران کو خدائی کارخانے کامالک اورمختار جاننا دین سمجھ رکھا ہے۔یہودی بھی اپنے بزرگوں اور شہیدوں کو ایسا ہی سمجھتے ہیں۔لیکن خیر اس متنبی کے اصحاب کو جبکہ ہم نے ایک قاعدے کی رو سے صدوق کہہ دیا ہے تو پھر متنبی صاحب بھی ویسے ہی سچے۔ ہمیں اس سے کوئی سروکار نہیں کہ یہودی کیا کہتے تھے اورکہتے ہیں۔ ہم تو اپنے نومسیحیوں سے