دعوے پر دعوے کہ جس کا جی چاہے تراجم اورتفاسیر دیکھ لے۔ اناﷲ واناالیہ راجعون!
برخوردار،سعادت آثار، نیک کردار۔اگر ایسا ہی کرنا تھا تو اتنا ہی کر دیتے کہ اس فہرست میں سے ان مقامات کو قلم انداز کر دینا چاہئے تھا ۔جن مقامات میں اگر توفی کے معنے موت اورقبض روح کے کئے جائیںتو قرآن کتاب الٰہی نہیں رہتا۔
چلئے لیجئے! اپنے رسالے کو ہاتھ میں اور کھولئے ص۲۳ پھر آئیے نمبر۶ پر۔ جہاں آپ نے حوالہ سورئہ انعام کا دیا ہے ۔ وہ پوری آیت یہ ہے :’’ھوالذی یتوفکم باللیل ویعلم ماجرحتم بالنھار ثم یبعثکم فیہ لیقضے اجل مسمے۰ ثم الیہ مرجعکم ثم ینبئکم بما کنتم تعملون(الانعام:۶۰)‘‘اس آیت کا ترجمہ ہم مرزائیوں کی خواہش کے مطابق کرتے ہیں۔ تاکہ ہر خوش قسمت بندہ آسانی سے سمجھ لے کہ مرزائی خواہش کے مطابق ترجمہ ہونے سے بھی مرزائیوں کو مفید نہیں ہوتا۔ بلکہ ہمارا ترجمہ ان کو کم صدمہ پہنچاتا ہے۔ لیکن ان کا ترجمہ تو ان کی ساری عمارت گرا دیتا ہے۔ چونکہ مرزائی تمام آیات قرآنیہ میں لفظ ’’توفی‘‘ کے معنے موت اورقبض روح کے کرتے ہیں۔اس سے نہایت خوش ہیں۔ اس لئے ہمیں اورمعانی کے اثبات کی تکلیف اٹھانا فضول ہے۔
لیجئے صاحب! ترجمہ حاضر ہے۔ { وہ خدا جو تم کو ہر رات کو مارڈالتا ہے اورتمہارے دن کے کاموں کو جانتا ہے پھر تم کو اس میں اٹھاتا ہے تاکہ وقت مقرر تک پہنچا ئے پھر اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔ پھر تم کو تمہارے اعمال کی خبر دے گا۔}
عطف کی بحث میں جو ہم نے کہا تھا کہ واؤ ترتیب کو نہیں چاہتی۔البتہ ثم کا استعمال ترتیب کے لئے ہوتا ہے۔وہی ثم صاحب یہاں آپہنچے جو اس آیت میں تین جگہ رونق افروز ہیں۔ ثم کا ترجمہ میں نے پھرکیا ہے۔ یہ’’پھر ‘‘ کا لفظ میرے ترجمہ میں تین بار آیا ہے۔ اب ترتیب قرآنی کو دیکھو کہ رات کو تمہیں مارڈالتا ہے۔(پھر کیا ہوتا ہے)کہ دن ہونے پر تم کو اٹھاتا ہے۔ (یہ مارنا جلانا بار بار کا کیوں ہوتاہے تاکہ آسانی سے تم وقت مقرر تک ’’یعنی اصلی موت کی گھڑی تک پہنچو‘‘ ) پھر کیا ہوتا ہے کہ تم مر کر خدا کی طرف لوٹ جاتے ہو۔ پھر کیا ہوگا۔خدا تم کو تمہارے اعمال کی خبر دے گا۔
اس آیت میں تین جگہ پر آکر ثم نے کیا کیا۔ سب سے پہلے پہلا کام بتایا، اس کے بعد کا کام بعد میں بتایا ۔اس کے بعد اس کے بعد کا کام۔ یعنی پہلے شب وروز کا مارنا جلانا بتایا۔ پھراصلی موت تک پہنچنا جتایا۔پھر خدا کی طرف لوٹ جانے کا ارشاد ہوا۔سب سے آخر میں اعمال سے آگہی پانے کی اطلاع بخشی۔ اس میں سب سے پہلے روزانہ موت کا ذکر فرمایا۔ یہی وہ