الموت ہونے غیر ثابت ہوئے اور یہ ظاہر بات ہے کہ پہلی آیت کا رفع بعد الموت کو ثابت کرنے والی صرف ترتیب ہے۔ سو ترتیب ہی نہ رہی تو اب رفع کو بعد الموت ثابت کرنے کے لئے آپ کے ہاتھ میں کیا رہا۔ اورجب پہلی آیت والا رفع آپ کے کام کا نہ رہا تو دوسری آیت کا رفع اس کا بھائی وہ کیوں آپ کی دلجوئی اوراشک شوئی کرنے لگا۔ بات وہی ہے جو مسلمانوں نے پہلے سے سمجھ رکھی ہے کہ آیات قرآنیہ میں رفع مسیح کو موت مسیح سے کچھ تعلق نہیں ہے۔
اگر درخانہ کس است
ایں قدر بس است
لیجئے اب تیسری آیت سورئہ مائدہ کا حال سنئے۔ سورئہ مائدہ والی آیت میں آپ نے تین باتوں پر اپنی طاقت صرف کر دی ہے۔
اوّل… یہ کہ اس میں حضرت مسیح علیہ السلام قیامت کے دن ’’فلما توفیتنی‘‘ فرمائیں گے۔
دوم… یہ کہ واقعہ ’’توفیتنی ‘‘ کے بعد آنجناب کو خدا یا خدا کا بیٹا کہا گیا۔
سوم… یہ کہ جناب خاتم النّبیینؐ اپنا جواب اورجناب ابن مریم کا جواب ایک ہی عبارت میں ادا فرماتے ہیں۔ حالانکہ آپؐ مرنے کے بعد جی کر یہ جواب دیں گے۔ پس جبکہ جواب دونوں کا یکساں ہے توحالت بھی دونوں پیغمبروں کی یکساں ہونی چاہئے۔ماشاء اﷲ کیا ہی استدلال ہے؟ میں نے اس لئے مرزائی جماعت کو بہادر کا خطاب دیا ہے۔ سنو عزیز من ،آپ کے شبہات کا نمبروار جواب حاضر خدمت ہے۔
لفظ’’توفی‘‘ ابواب ثلاثی مزید فیہ کا ایک مصدر ہے۔ جس کو ثلاثی مجرد میں لے جانے سے فوت رہ جاتا ہے۔ چونکہ قوت آپ کے ہاتھ سے فوت ہو چکا ہے۔اس لئے آپ اس کے بھائی توفی سے اپنی تشفی کر رہے ہیں۔ سارا زور آپ کا اورآپ کی جماعت کا اس بات پر ہے کہ اوّل تو یہ لفظ موت کے سوا کوئی معنے رکھتا ہی نہیں اوراگر بالفرض کوئی معنے ہوں بھی تو قرآن مجید اس معنی میں کہیں ناطق نہیں ہوا۔ اس تقریر سے یا تو یہ پایا جاتا ہے کہ آپ قرآن دانی میں بھی ایسے عدیم المثیل ہیں جیسے صرف ونحو وعربیت وغیرہ میں۔ یا یہ جان بوجھ کو خلق اﷲ کر دھوکہ دے رہے ہیں۔
خدا کے لئے غصے اورغضب سے تھوڑی دیر کے واسطے کنارہ کش ہوکر کہو کہ آپ نے اپنے اسی رسالے الدلیل محکم کے آخر میں ص۲۳پر جو ۳۴مقامات قرآنی سے لفظ ’’توفی‘‘ کو اٹھا کر ایک فہرست کی صورت میں دکھایا ہے اورجلی قلم سے زوروشور کے ساتھ دعویٰ کیا ہے کہ اب سب مقامات میں توفی کے معنے موت اورقبض روح کے سوا کچھ نہیں ہوتے اورڈنکے کی چوٹ