حکومت اسلامی ہے اوراسلام خود ایک مذہب ہے ۔ تو پھر ایک کو دوسرے سے جدا کیسے کر سکتے ہیں؟ اصل میں ایک عام وبا پھیل گئی ہے ۔ جو انگریزی دور کی پیداوار ہے کہ مذہب اور سیاست دو الگ الگ چیزیں ہیں اوراسی سے ہماری حکومت متاثر ہے۔حالانکہ اسلام کا عملی حصہ مجموعہ سیاست ہے۔جس کے تین شعبے ہیں۔
۱… تہذیب اخلاق یعنی بندے اورخدا کامعاملہ۔
۲… تدبیر منزل گھریلو نظام۔
۳… تدبیر ملک یعنی حکومت کا نظم ونسق۔
اگرحکومت اسلامی نظریے کے تحت مرزائیوں سے غیر مسلم والا سلوک کرتی تو نہ کوئی جانی نقصان ہوتا نہ مالی۔نہ مارشل لاء لگانے کی ضرورت پیش آتی ۔لیکن جب حکومت نے اپنے فرض کا احساس نہ کیا تو اس تحریک کے ذریعہ اظہارناراضگی کیاگیا۔جس سے حکومت نے یہ سمجھا کہ اس تحریک کامقصد ملک میں انتشار اوربدامنی پھیلانا ہے۔ حاشا وکلا !
یہ تو موجودہ تحریک کی طرف سے صفائی پیش کی گئی ہے۔ لیکن ہمارا ایک مشورہ حدیث نبوی کی روشنی میں اس سے بالاتر ہے۔جس کاکئی دفعہ ہم وعظوں ،تقریروں میں اظہار کر چکے ہیں۔ حضور خاتم النبیین ؐ کاارشادہے:’’عن ابی الدردائؓ قال قال رسول اﷲﷺ ان اﷲ تعالیٰ یقول انااﷲ لا الہ الا انامالک الملک ومالک الملوک قلوب الملوک فی یدی وان العباد اذا اطاعونی حولت قلوب ملوکھم علیھم بالرحمۃ والرافۃ وان العباد اذا عصونی حوّلت قلوبھم بالسخطۃ والنقمۃ فسامرھم سوء العذاب فلاتشغلوا انفسکم بالدعاء علی الملوک ولکن اشغلو اانفسکم بالذکروالتضر کی اکفیکم ملوککم رواہ ابونعیم فی الحلیۃ (مشکوٰۃ کتاب الامارۃ الفصل الثالث ص۳۲۳) ‘‘{خدا تعالیٰ فرماتے ہیں ۔میں اﷲ ہوں۔ میرے سوا کوئی معبود نہیں۔ میں مالک الملک ہوں۔شہنشاہوں ،بادشاہوں کے دل میرے قبضہ میں ہیں اور میرے بندے جب میری اطاعت کرتے ہیں تو میں بادشاہوں کے دل بندوں کے حق میں نرم کر دیتا ہوں۔پس وہ ان کے ساتھ نرمی اورمحبت سے پیش آتے ہیں اور جب بندے میری نا فرمانی کرتے ہیں ۔تو میں بادشاہوں کے دل بندوں کے حق میں سخت کردیتاہوں۔پس وہ ان کو سخت تکلیف دیتے ہیں۔ تم بادشاہوں کو بددعا دینے کی بجائے خدا کویاد کرو اوراس کے حضور میں گریہ زاری کرو۔خداان کی طرف سے تمہاری کفایت کرے گا۔ }