کے خطرات اس قدر ہیں کہ کوئی اسلامی حکومت اس کو برداشت نہیں کر سکتی۔
آہ! ہماری بدقسمتی اوربدبختی کی انتہاء ہے کہ یہ انگریز کا خود کاشتہ پودا قادیانی نبوت پاکستان کے حصہ میں آگئی۔ جس کی بدولت ہزاروں جانیں تلف ہوئیں۔ سینکڑوں گرفتاریاں عمل میں آئیں۔ بالخصوص لیڈران قوم پرشدید مصائب آئے کئی شہید ہوئے اوربہت سے اب تک جیلوں میں سڑ رہے ہیں۔ کیا یہ امرقابل افسوس نہیں کہ جس نبوت کاذبہ کا وجود ہی کوئی اسلامی حکومت کسی حیثیت سے برداشت نہیں کر سکتی۔نہ اسلامی حیثیت سے نہ سیاسی حیثیت سے حکومت پاکستان اس کو اقلیت قرار دینے میں بھی پس وپیش کررہی ہے۔ الی اﷲ المشتکی!
دوسری بات قابل توجہ یہ ہے کہ حکومت پاکستان کے اندرمرزائیت کو اپنی علیحدہ سٹیٹ کا فکر ہوا۔ حالانکہ حکومت نے اس کے ساتھ بہت سے خصوصی احسان کئے۔ ملک تقسیم ہوتے ہی نصف حکومت کے اختیارات اس کے حوالے کر دیئے۔ظفر اﷲ کو وزیرخارجہ بنادیاجس کی وجہ سے بیرونی اختیارات کلی طور پر مرزائیت کے ہاتھوں میں آگئے اوراندرونی طور پر بھی ہر محکمہ میں بہت زیادہ اقتدار پیدا کرلیا اورمستقل مرکز بنانے کے لئے ربوہ کاجنگل دے دیا گیا۔مگر مرزائیت ایسی احسان فراموش واقع ہوئی کہ اپنی علیحدہ اسٹیٹ حاصل کرنے کی دھن میں مگن رہی۔ چنانچہ ۲۳؍جولائی۱۹۴۸ء کو مرزامحمود نے کوئٹہ میں ایک خطبہ دیا ۔جو ۲۳؍اگست ۱۹۴۸ء کے ’’الفضل‘‘ میں شائع ہوا۔ اس میں آپ فرماتے ہیں:’’ برٹش بلوچستان…جو اب پاکی بلوچستان ہے… کی کل آبادی پانچ یا چھ لاکھ ہے۔ یہ آبادی اگرچہ دوسرے صوبوں کی آبادی سے کم ہے۔ مگر بوجہ ایک یونٹ ہونے کے اسے بہت بڑی اہمیت حاصل ہے۔ دنیا میں جسے افراد کی قیمت ہوتی ہے۔یونٹ کی بھی قیمت ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر امریکہ کی کانسٹی ٹیوشن ہے۔ وہاں اسٹیٹس سینٹ کے لئے اپنے ممبر منتخب کرتی ہے۔ یہ نہیں دیکھا جاتا کہ کسی اسٹیٹ کی آبادی دس کروڑ ہے یا ایک کروڑ ہے۔سب اسٹیٹس کی طرف سے برابر ممبر لئے جاتے ہیں۔ غرض پاکی بلوچستان کی آبادی ۵،۶ لاکھ ہے اوراگر ریاستی بلوچستان کو ملا لیا جائے تو اس کی آبادی گیارہ لاکھ ہے۔ لیکن چونکہ یہ ایک یونٹ ہے ۔اس لئے اسے بہت اہمیت حاصل ہے۔ زیادہ آبادی کو تو احمدی بنانا مشکل ہے۔لیکن تھوڑے آدمیوں کواحمدی بنانا مشکل نہیں۔ پس جماعت اس طرف اگر پوری توجہ دے تو اس صوبے کو بہت جلدی احمد ی بنایا جا سکتا ہے۔ …یاد رکھو تبلیغ اس وقت تک کامیاب نہیں ہو سکتی۔ جب تک ہماری بیس مضبوط نہ ہو۔ پہلے بیس مضبوط ہو تو پھر تبلیغ پھیلتی ہے۔ بس پہلے اپنی بیس مضبوط کر لو۔ کسی نہ کسی جگہ اپنی بیس بنا لو۔کسی ملک میں ہی بنا لو… اگر ہم سارے صوبے کو