سے استدلال کرتے ہیں۔ لیکن معنے ومطلب میں ان کا اس قدر اختلاف ہے کہ ایک گروہ دوسرے کو کافر کہتا ہے۔ اسی طرح دوسری جماعتوں کی آپس میں تکفیر صرف معنی مفہوم میں اختلاف کی بناء پر ہے ۔ورنہ نبی سب کا ایک ہے۔ سب اسی کی وحی والہام کو دلیل اورحجت سمجھتے ہیں۔ منکرین حدیث کا بھی نبی جدا نہیں ہے۔ ان کو صرف حدیث کے وحی اورالہامی کلام ہونے میں اختلاف ہے۔ یہ تفریق اگرچہ کفر تک پہنچ گئی ہے۔ مگراس میں وہ بُعد نہیں جو پہلی تفریق میں ہے۔ جس کی دو وجہ ہیں۔
اوّل! یہ کہ نبی براہ راست اﷲ تعالیٰ سے پیغام حاصل کرتا ہے اورجب نبی جدا ہو تو جڑ سے ہی جدائی اور تفریق ہو گئی۔ ایسا اختلاف قوم کو مستقل دوامتیں بنادیتا ہے اورنبی ایک ہونے کی صورت میں دونوں کا رجوع اسی نبی کی طرف ہو گا ۔پس وہ دو مستقل امتیں نہ ہوں گی۔
دوسری! وجہ یہ ہے کہ جب نبی جدا ہوا اوراس کو جھٹلایا جائے تویہ گویا نبی پر کفر کا فتویٰ ہے اور نبی ایک ہونے کی صورت میں اگر ایک دوسرے پر کفر کا فتویٰ ہو تو یہ امتی کا امتی پر فتویٰ ہے اور ان دونوں میں جو فرق ہے وہ ظاہر ہے۔
افسوس ہے کہ اس مسئلہ پر کماحقہ غور کیاگیا۔ اصل بات یہ ہے کہ مرزائیت کو اقلیت قرار دینے کے مطالبہ کا مدار صرف کفر واسلام کی بحث پر نہیں ۔بلکہ یہ نبوت کی تبدیلی کالازمی نتیجہ ہے ۔ اس مطالبہ کا بنیادی نقطہ یہ ہے کہ امتیں ہمیشہ نبوت کے تابع ہوتی ہیں۔ نبوت کے بدل جانے سے امت بھی علیحدہ ہو جاتی ہے۔ یہودی عیسائی مسلمانوں سے اس لئے علیحدہ ہیں کہ ان میں اور مسلمانوں میں نبوت کی تفریق ہے۔
دوسری جماعتوں کا آپس میں سلسلہ تکفیر خواہ کسی حد تک بھی کیوں نہ پہنچ جائے۔ مرکز نبوت سب کا ایک ہے۔ تمام فرقے صدہا اختلافات کے باوجود نبوت محمدیہ پر متفق اور متحد ہیں اور عقیدہ ختم نبوت پر سب کااجماع ہے۔
مرزائیوں نے چونکہ اپنی نبوت علیحدہ کر لی ہے اور اسی نبوت کی وجہ سے انہوں نے مسلمانوں سے کلی مقاطعہ کیا ہے۔اس بناء پر مسلمانوں کا مطالبہ ہے کہ مرزائیوں کو یہودیوں اور عیسائیوں کی طرح علیحدہ اقلیت قرار دیا جائے۔ مختصر یہ کہ مرزائیوں کو دوسری جماعتوں کے اختلاف پر قیاس کرنا غلط ہے۔ مرزائی مسلمانوں سے اپنی نئی نبوت کی وجہ سے علیحدہ ہیں۔ چنانچہ مذکورہ بالاعبارات مرزائیہ کو پھر پڑھ جائیے۔ مرزائی خود اعلان کرتے ہیں کہ مسلمان اور مرزائی کی تفریق بالکل اسی طرح کی ہے جیسے مسلمانوں اورعیسائیوں ویہودیوں کی تفریق ہے۔