مارنے والا پڑھنے میں آگئے تو اسی معنے کو لے کر ا ن باکمال بزرگوں سے جھگڑتا پھرے گا کہ دیکھو اتنے بڑے مفسر نے تو یہ معنے کئے ہیں اور تم اس کے خلاف کر رہے ہو۔ تم کو خدا کا خوف نہیں۔ تم بے انصاف ہو۔ تمہاری آنکھوں پر تعصب کی پٹی پڑی ہوئی ہے۔
کہومسلمانو !اورخدا لگتی کہو کہ اس نیم ملا کا یہ الزام ان اکابر علماء پر مناسب اورموزوں ہو گا؟ہرگز نہ ہوگا۔ گو ہمیں اب تک بڑی تلاش کے بعد بھی صحیح البخاری کی سورئہ بقر ہ کی تفسیر اس آیت :’’انی متوفیک‘‘ کے متعلق کچھ نہیں ملا۔ تاہم صحابہ کا زمانہ چونکہ خیر القرون ہوتا ہے۔ مرزا قادیانی کو وصال منکوحہ آسمانی ابھی ابھی ہوا ہے؟ لہٰذا ان کے اصحاب وحوارین بھی زندہ موجود ہیں۔ علماء اسماء الرجال نے فیصلہ کیا ہے کہ :’’الصحابۃ کلھم عدول‘‘اسی بناء پر ہم بھی فیصلہ کرتے ہیں کہ نبی کے اصحاب کو جب عدول کہا گیا ہے تو متبنی کے اصحاب کو صدوق کیوں نہ کہا جائے؟ مگر لیجئے ہم آپ کو صدوق سمجھ کر کہتے ہیں کہ ضرور حضرت ابن عباسؓ نے متوفیک کی تفسیر آپ کے کہنے کے موافق اسم فاعل ہونے کی حالت میں کی ہو گی۔ مگر مکرما۔فعل کی تفسیر میں آنجناب سے کچھ کہلوا دیجئے۔ تو مدۃ العمر آپ کا ممنون رہوں گا۔
جب آپ کا صرف میں کچا پن معلوم ہوا کہ اسم کو زمانہ کے ساتھ وابستہ کر رہے ہو ۔یہ ویسے نحوی بوداپن بھی جناب کا ظاہر ہے کہ آپ عطف واوی کو ترتیب کے لئے مفید سمجھ رہے ہو۔ علم کی کمی کے ساتھ مفتی یامصنف بننا اپنے پاؤں پر آپ کلہاڑی مارنا ہے۔ دیکھو بھائی حروف عاطفہ مثلاًواو،اورفا،اورثم۔ان میں سے ثم بے شک ترتیب وتراخی کو چاہتا ہے اور ف بھی کبھی کبھی ترتیب کا کام دے جاتا ہے۔لیکن غریب واو تو نہ الالذی نہ اولاالذی۔ خدا کے لئے کسی عربی کے مدرسے میں جا کر اس طالب علم سے پوچھو کہ جس نے نحو میں پہلا قدم رکھا ہو۔ وہ چھوٹتے ہی آپ کو عطف واوی کی مثال میں کہہ دے گا کہ جب عرب کہے۔ جاء نی زید وعمر۔ تو سامع یہی سمجھے گا کہ متکلم ان دونوں کا آنا بیان کررہا ہے۔ اس کلام میں شرط نہیں کہ اگر عمر پہلے آیا تھا یا متکلم نے زید کو کیوں مقدم کیا۔
ہاںہاں صرف ونحو پڑھنا شاید مرزائی مذہب میں ناجائز ہو۔ ان ایمان داروں کو صرف قرآن پر ایمان ہے۔ بہت اچھی بات ہے۔ دیکھئے قرآن مجید کو ہاتھ میں باوضو ہوکر لیجئے۔ قبلہ رخ ہوکر بیٹھئے۔ آدھا ادھر۔آدھا ادھر ۔بیچ میں کھولئے سورئہ مریم کو ملاحظہ فرمائیے۔ سب سے پہلے حضرت زکریا اوریحییٰ علیہم الصلوٰۃ والسلام کا قصہ نظرآئے گا۔ اس کے بعد واو عاطفہ کے ساتھ حضرت مریم علیہاالسلام اور ان کے ہونہار نونہال حضرت مسیح کلمۃ اﷲ وروح اﷲ کا ذکر شروع ہوا ہے۔ یہ واو عاطفہ جو حضرت مریم اورحضرت زکریا کے قصوں کے درمیان واقع ہوئی ہے۔ یہ تو بلا