کے الفاظ ہیں۔ یہ ترتیب مقدمات قادیانی کے رسالے کی پریشان عبارتوں میں سے ہم نے قائم کی ہے۔ ورنہ اس بندئہ خدا نے تو یوں ہی مفسرین کو برابھلا کہنے اوردانت پیسنے کے سوا کچھ نہیں کیااوراگر وہ مانیں تو یہ ہمارا احسان ہے قادیانی کی جماعت پر کہ اس ترتیب سے بآسانی وہ ممات مسیح پر استدلال کر سکتے ہیں۔
چلئے اب ہم اپنے کام میں مشغول ہوتے ہیں۔’’متوفی‘‘ صیغہ اسم فاعل کا ہے۔ جس کو خدا تعالیٰ نے اپنی نسبت ادا فرمایا ہے ۔جس کا ہم قادیانی خواہش کے مطابق یوں ترجمہ کرتے ہیں۔
’’اے عیسیٰ میں تجھے مارنے والا ہوں اوراٹھانے والا ہوں اپنی طرف۔‘‘اسم فاعل، اسم مفعول وغیرہ کل اسماء کسی زمانہ کے ساتھ تعلق نہیں رکھتے ۔ جس کو ایک بچہ جس نے علم صرف کی ابتدائی کتابیں پڑ ھی ہوں ۔سمجھ سکتا ہے ۔البتہ فعل زمانوں میں سے کسی نہ کسی زمانہ کا محتاج ہوگا۔ پس پہلی آیت :’’انی متوفیک ورافعک الیّٰ‘‘ میں خدا نے اپنے اسماء جس میں سے دو اسموں کا استعمال فرمایا جس پر تمام مسلمانوں کا اتفاق وعقیدہ ہے اوررہے گا۔ بے شک اﷲ رب العزت حضرت مسیح علیہ السلام کو مارنے والا ہے اور ان کے بعد جو نسلیں قیامت تک ہوں گی۔ سب کا وہی مارنے والا ہے۔خدا کی صفتیں ازلی وابدی ہیں۔ ان کا ظہور ہمیشہ ہوتا رہے گا۔ کون سا مسلمان ہے جس کا عقیدہ ہو کہ خدا تعالیٰ حضرت مسیح کو نہ مارے گا اور وہ دائماً ابداً زندہ رہیں گے۔چلئے اب حضرت ابن عباسؓ نے بالفرض متوفی کے معنی ممیت کئے بھی ہوں تو ہمارا کیا نقصان ہے۔ ہم تو پہلے سے مانے ہوئے ہیں کہ حضرت مسیح مرنے والے ہیں۔
اب رہی وہ آیت کہ جس میں بصیغہ فعل فرمایا ہے:’’بل رفعہ اﷲ الیہ‘‘پھر رفع کو موت کے بعد ثابت کرنے کے لئے قادیانی نے تیسری آیت سورئہ مائدہ پیش کی ہے :’’فلما توفیتنی‘‘اب یہاں مہربانی فرما کر حضرت ابن عباسؓ کو بلالاؤ تو ہم آپ کو بہادر سمجھیں۔ لاکھ بار قادیان کے منارئہ مصنوعی پر چڑھ کر یا بن عباسؓ،یا بن عباسؓ کر گلا پھاڑو۔ جواب تک نہیں ملے گا اورکیوں ملے۔ وہ جرالامت ہیں۔ وہ مسکین قادیانیوں کی طرح اس بات پکار پکار سے ناواقف نہیں ہیں کہ کلام عرب میں جس مادے کے جو معنے اسم میں ہوتے ہیں انہیں معنوں کا ہونا فعل میں لازم نہیں اور یہ بھی لازم نہیں کہ ہر مادہ میں اسم فعل کے معنے متغائر ہوں۔
مثلاً ضارب اسم فاعل ہے جس کے معنے مارنے والا وغیرہ۔ اور فعل میں آکر :’’ضرب اﷲ مثلا رجلا فیہ شرکاء متشاکسون (الزمر:۲۹)‘‘یہاں ضرب کے معنے مثال بیان کرنے کے ۔ایسے موقع پر اگر کسی نیم ملا کو کسی معتبر مفسر کی تفسیر میں ضارب کے معنے