سطحی واقعہ ہے جو عارضی طور پر محض احرار کے اکسانے سے رونما ہوگیا ہے۔ وہ سمجھتے ہں کہ بس چند مقامات پر دفعہ ۱۴۴ لگا کراور کچھ پکڑ دھکڑ اورلاٹھی چارج کر کے اور کچھ خطیبوں کو ڈرادھمکا کر وہ اس اتفاق رائے کو ختم کر سکیں گے جو قادیانیوں کے معاملے میں پایا جاتا ہے۔ یہ سب باتیں صاف بتا رہی ہیں کہ یہ حضرات اس مسئلے کی تاریخ سے، اس کے دینی، سیاسی، معاشرتی اور معاشی پہلوؤں سے اورعام مسلمانوں کے تلخ احساست کی گہرائیوں سے ناواقف ہیں اوراجنبی حکمرانوں کی طرح ان کی معلومات کا انحصار سراسر سی آئی ڈی کی رپورٹوں اورڈان اور سول جیسے اخبارات کے کالموں پر ہے۔ ایسے لوگ اگر اسی سرمایہ علم وفہم کے ساتھ اس ملک کا نظم ونسق چلاتے رہے تو اﷲ ہی بہتر جانتا ہے کہ کب کسی صدمہ عظیم سے ہم کو دو چار ہونا پڑے گا۔
بلاشبہ کوئی معقول آدمی بھی یہ پسند نہ کرے گا کہ اس مسئلہ کو یا کسی دوسرے اجتماعی مسئلے کو فساد انگیز طریقوں سے حل کیا جائے۔ایسے طریقے اگر اختیار کئے جائیں تو یقینا ہر حکومت کا فرض ہے کہ ان کو روکے اور ہر امن پسند شہری کا فرض ہے کہ ان کو روکنے میں حکومت کی مدد کرے۔ مگر ایک جمہوری حکومت کے فرائض صرف پولیس ڈیوٹی تک محدود نہ ہونے چاہئیں۔ اس کا یہ فرض بھی تو ہے کہ اجتماعی زندگی میں اگر کوئی خرابی پائی جاتی ہو تو اسے اوراس کے اسباب کو سمجھے اور موجب فساد بننے سے پہلے اس کا علاج کرے۔ آخر یہ کسی عقلمند حکومت کا کام ہو سکتا ہے کہ جو اسباب معاشرے میں نصف صدی سے ایک سخت پیچیدگی پیدا کررہے ہیں اور جن سے معاشرے کی بنیادوں میں ہر وقت ایک غیر محسوس اضطراب برپارہتا ہے۔ ان کو جوں کا توں قائم رہنے دیا جائے اور صرف وقتاً فوقتاً ان کے پیدا کردہ ابال کواوپر سے لاٹھیاں برسا کر اور زباں بندیاں کر کے روکا جاتا رہے؟ اس تدبیر سے ممکن ہے کہ تھوڑی دیر کے لئے فساد رک جائے۔ مگر اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ اس کے حقیقی اسباب اندر ہی اندرگھٹ کر ایک آتش فشاں پیدا کر دیں گے۔ جسے پھٹنے سے روک دینا کسی انسانی طاقت کے بس میں نہ ہوگا۔
ایک امت کے اندر دوسری امت کا وجود بہرحال ایک غیر فطری چیز ہے۔ جس طرح کسی انسان کے معدے میں مکھی کو زبردستی نہیں روکا جا سکتا۔ اسی طرح کوئی امت بھی اپنے اندر دوسری امت کے بننے اورپھیلنے کو برداشت نہیں کرسکتی۔ یہ غیر فطری حالت بہرحال ختم کرنی پڑے گی اورجتنی جلدی یہ ختم ہو اتناہی پاکستان کے حق میں بہترہوگا۔