جہاں تک حکومت اور اس کے نظم ونسق کو چلانے والے اصل ذمہ دار ادارے(یعنی مرکزی پارلیمنٹ اوردستورساز اسمبلی) کا تعلق ہے۔ ہماری قطعی رائے یہ ہے کہ اسے ایک قومی حکومت اور قومی پارلیمنٹ ہونے کی حیثیت سے اپنے فرض کو پہچاننا چاہئے اور اس مسئلے کو جلدی سے جلدی حل کرکے اس اضطراب کو ختم کردینا چاہئے جو ملک میں حقیقی اسباب کی بناء پرپیدا ہوا ہے۔ لیکن ایک سوال یہ رہ جاتاہے کہ اگر وہ اپنافرض نہ پہچانے تو مسلمانوں کو کیاکرنا چاہئے؟
اس سوال کا جواب میرے نزدیک وہی ہے جوجماعت اسلامی کی مجلس شوریٰ اس سے پہلے دے چکی ہے اور وہ یہ کہ یہاں ایک قادیانی فتنہ ہی موجود نہیں ہے۔ بے شمار فتنے ہیں۔ جو ایک صحیح اسلامی حکومت کے موجود نہ ہونے اورقوانین شرعیہ کے معطل رہنے کی وجہ سے پرورش پارہے ہیں۔ اس حالت میں یہ کوئی عقلمندی نہیں ہے کہ اس ضمنی اور طفیلی فتنوں کے خلاف الگ الگ محاذ آئے دن قائم کئے جاتے رہیں اور اصل بنائے فساد کو جوںکا توں رہنے دیا جائے۔ عقل کاتقاضا یہ ہے کہ ہم جڑ کی اصلاح پراپنی تمام کوششیں مرکوز کردیں۔ یعنی ساری قوم اپنی متحدہ طاقت کے دباؤ سے یہاںا یک خالص اسلامی دستور بنوائے اور پھر اس دستور کے مطابق حکومت کا انتظام چلانے کے لئے صالح لوگوں کو منتخب کرے۔ اس کے بعد بیک وقت سارے ہی فتنوں کا سدباب ہو جائے گا۔ جن میں سے ایک یہ قادیانی فتنہ بھی ہے۔ ورنہ ہمیں یہ سخت اندیشہ ہے کہ اگر مختلف چھوٹے چھوٹے مسائل کو چھیڑ کر توجہات اورکوششوں کومنتشر کردیاگیا تو نہ اصل مسئلہ ہی حل ہوسکے گا اور نہ اس کے شاخسانوں ہی میں سے کسی کی قطع و برید میں کامیابی ہوگی۔
اس سلسلے میں ہمیں ایک اور بات بھی اپنے برادران دین سے کہنی ہے وہ یہ کہ آپ خواہ کوئی تحریک کسی مقصد کے لئے بھی چلائیں۔ بہرحال اس کے چلانے میںنظم وضبط کی سختی کے ساتھ پابندی کریں اور کبھی اشتعال میں آکر بے قابو نہ ہوں۔ آگ کی موجودگی تو بلاشبہ کسی نہ کسی درجے میں ضروری ہے۔مگر آگ وہی کام کی ہے جو حد میں رہے اورحسب ضرورت بھڑکائی اور بجھائی جاسکے ورنہ بے قابوآگ تو گھر ہی جلا سکتی ہے۔ کھانا نہیں پکا سکتی۔
٭ …… ٭ …… ٭