حالات رفتہ رفتہ پیدا ہوتے جارہے ہیں جو کبھی قادیان میں تھے اورہم نے اس علاقے کے مسلمانوں میں وہی احساسات پائے ہیں جو فلسطین میںوطن یہود کی بنیاد پڑتے وقت ملحقہ عرب آبادی میں پائے جاتے تھے۔
انہوں (مسلم لیگ) نے فوج میں اور سول محکموں میں قادیانیوں کو پہلے سے زیادہ ذمہ دار عہدوں پر فائز کیا اور پھر ان لوگوں نے پوری جتھہ بندی کے ساتھ مزید قادیانیوں کو ملازمتوں میں داخل کرنا اور عام مسلمانوں کو دھکیل دھکیل کر قادیانیوں کی ترقی کے لئے راستہ صاف کرنا شروع کردیا۔
انہوں (مسلم لیگ)نے انتخابات میں بے تکلف اپنی پارٹی کے ٹکٹ قادیانیوں کو دیئے جس کے صاف معنی یہ تھے کہ مسلمانوں کی سب سے بڑی سیاسی پارٹی نے جو ملک کی حکمران بھی ہے۔ قادیانیوں کو نہ صرف مسلمان بلکہ مسلمانوں کی نمائندگی کا حقدار تک تسلیم کرلیا۔ان سے زیادہ سخت غلطی انہوں نے یہ کی کہ سرظفراﷲ کو وزارت خارجہ کا ذمہ دار انہ عہدہ سونپ دیا۔ یہ صاحب ملازمتوں میں قادیانیوں کو گھسانے اور اپنی سرکاری پوزیشن کو قادیانیت کی تبلیغ میں استعمال کرنے کے لئے پہلے ہی سخت بدنام تھے۔ اب اس پوزیشن پرآکر ان کی ذات قادیانیت کے فروغ کا ایک اہم ذریعہ بن گئی اور اس پر مزید ایک فتنہ کا اضافہ یوں ہوا کہ جب وزیرخارجہ پاکستان ہونے کی حیثیت میں ان کو متعد د مسلمان ممالک کی وکالت و حمایت کے مواقع ملے۔ تو اس سے قادیانیوں نے پورا فائدہ اٹھا کر باہر کے مسلمان ملکوں میں بھی اپنی تبلیغ کا دائرہ کار وسیع کرنا شروع کر دیا۔ اس چیز کی وجہ سے وہ آگ جو قادیانیت کے خلاف پاکستان میں بھڑک رہی تھی۔ بیرون ملک میں بھی بھڑک اٹھی اورمتعدد مسلمان ملکوں کی طرف سے یہ شکایات آنے لگیں کہ تمہاری حکومت کی یہ غلطی اب ہم پر بھی اس فتنے کو مسلط کررہی ہے۔ مفتی مصر کاتازہ فتویٰ اس سلسلہ کی ایک کڑی ہے۔
یہ سب کچھ کر چکنے کے بعد جب ہمارے حکمرانوں کے سامنے ان کی حماقتوں کے مجموعی نتائج ایک عام ہیجان کی شکل میں نمودار ہوگئے تو اب بھی وہ اس ہیجان کو اور اس کے حقیقی اسباب کو سمجھنے سے پہلو تہی کر رہے ہیں اور اس کے متعلق ایسے غلط اندازے کرر ہے ہیں۔ جو کسی ملک کے ذمہ دار حکمرانوں کے نہیں۔بلکہ نادان بچوں ہی کے شایان شان ہوسکتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ کوئی