کہ ایک دوسرے کے جنازوں کی شرکت تک کے تعلقات منقطع ہونے لگے۔
پھر چونکہ قادیانیوں کی نئی امت مسلمانوں کے درمیان ان کی عام نفرت مزاحمت اور مخالفت کے ماحول میں بن رہی تھی۔ اس لئے انہوں نے اپنے حالات کے قدرتی تقاضوں سے اپنی مضبوط جتھہ بندی شروع کر دی جس کی بنیاد قادیانی اورغیر قادیانی کی تمیز اور مسلمانوں کے مقابلہ میں قادیانیوں کی باہمی معاونت پر قائم تھی۔ انہوں نے ملازمتوں میں ایک دوسرے کی مدد سے گھسنا اور عام مسلمانوں پر اپنے آدمیوں کو ترجیح دینا اور مل جل کر اپنے آدمیوں کو آگے بڑھانا شروع کیا۔ انہوں نے جہاں کہیں بھی انہیں کچھ سرکاری اثرات حاصل ہوئے،مسلمانوں کودبانا اور اپنے گروہ کی طاقت کو مضبوط کرنا شروع کیا۔ انہوں نے زمینداری میں ، تجارت میں، صنعت و حرفت میں، ہر جگہ مسلمانوں کے خلاف جتھہ بندی کرلی۔ اس طرح ان کے اور مسلمانوں کے درمیان منافرت کے وہ تمام اسباب پیدا ہوتے چلے گئے۔ جنہوں نے ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان منافرت کو بڑھا کرآخرکار اتنا تلخ کردیا کہ تقسیم ملک تک نوبت پہنچ گئی۔
یہ صورت حال کسی ایک جگہ یا ایک حصہ آبادی تک محدو د نہ تھی۔ بلکہ وسیع پیمانے پر سارے ملک میں موجود تھی۔ ہزارہا خاندان اس سے متاثر تھے اور لاکھوں آدمیوں کو اس کی تلخیوں میں سے کچھ نہ کچھ حصہ ملاتھا۔
قیام پاکستان کے بعد جن لوگوں کے ہاتھ میں حکومت کے اختیارات آئے۔ اگر وہ عام مسلمانوں سے الگ تھلگ اوراسلامی عقائد سے بے پروا اوراپنی قوم کے احسانات سے ناآشنا نہ ہوتے تو وہ اس مسئلہ کو ان مسائل کی فہرست میں رکھتے جنہیں اولین فرصت میں حل کرنا چاہئے تھا۔ لیکن بدقسمتی سے وہ بالکل اپنے انگریز پیش روؤں کے جانشین بن کر رہے اور انہوں نے نہ صرف سابق حالت کو برقرار رکھا بلکہ ان اسباب میں اور زیادہ اضافہ کرنا شروع کردیا۔ جو مسلمانوں کو پہلے ہی قادیانیوں کے خلاف کافی غضبناک کر چکے تھے۔
انہوں نے پاکستان میں ربوہ (اور اب اس کا نام چناب نگر ہے۔ مرتب) کے نام سے ایک دوسرا قادیان بنوادیا اور قادیانیوں کو وہاں وہ سہولتیں فراہم کردیں جو مسلمانوں کی کسی جماعت اورکسی ادارے کو فراہم نہیں کی گئیں۔ آج اس ربوہ سے جھنگ، لائل پور ،گوجرانوالہ اورسرگودھا کے ملحق علاقے اس قدر تنگ ہیں کہ گویا ایک خنجر ان کے سینے میںپیوست کیاگیا ہے۔ وہاں وہ تمام