جاسکے۔ اس کے بعد توناگزیر ہوجاتا ہے کہ یا اسے مانئے یا جھوٹا قرار دیجئے۔ جو اس کو مانے وہ لامحالہ تکذیب کرنے والوں کے نزدیک کافر ہوگا۔ کیونکہ جھوٹے نبی کو نبی ماننا کفر ہے اور جو اس کو نہ مانے وہ بلاریب ماننے والوں کے نزدیک کافر ہوگا۔کیونکہ سچے نبی کو جھوٹاکہنا کفر ہے۔ اس لئے قادیانیت نے نہ صرف یہ کہ ایسا مسئلہ مسلمانوں کے درمیان پیدا کردیا جسے نظرانداز کرنا ممکن نہ تھا۔ بلکہ اس مسئلے نے عملاً ماننے اورنہ ماننے والوں کے درمیان ایک ایسی دیوار کھڑی کر دی جس کے ہوتے ہوئے یہ دونوں گروہ کسی طرح بھی ایک امت میں جمع نہ ہوسکتے تھے۔ مزیدبرآں جب کہ قرآن، حدیث اوراجماع امت کی بناء پر عام مسلمانوں کے نزدیک باب نبوت قطعی بندتھا۔ تو یہ بات بالکل ناگزیر تھی کہ ایک گروہ قلیل کے سوا مسلمانوں کا سواد اعظم مرزا قادیانی کی نبوت کو ماننے سے انکار کردے اور اس بناء پرسواد اعظم اس گروہ قلیل کے نزدیک کافر ہو اور وہ گروہ قلیل سواد اعظم کے نزدیک کافر ٹھہرے۔
یہ کڑواگھونٹ مسلمان ہرگز حلق میں نہ اتارتے اگر اختیارات ان کے ہاتھ میں ہوتے۔ لیکن اختیارات ایک ایسی قوم کے ہاتھ میں تھے جس کو مسلمانوں کے بنیادی عقائد سے یا ان کی قومی سالمیت سے کوئی دلچسپی کیا معنے،ہمدردی تک نہ تھی۔ ا س لئے ایک امت کے اندر دوسری امت بنتی بھی رہی اور پھر اسی امت میں شامل بھی رہی جس سے کاٹ کاٹ کر وہ افراد کو اپنے ساتھ ملارہی تھی۔انگریز کے لئے وہ سب لوگ یکساں تھے جن کے نام مسلمانوں کے طریق تسمیہ پر رکھے جاتے ہوں۔ ان کو اس سے کچھ بحث نہ تھی کہ اسلام کی بنیادی تعلیمات کے لحاظ سے اب یہ نوخیز امت، امت مسلمہ میںشامل رہ سکتی ہے یا نہیں۔ وہ برابر اسی بات پر مصر رہے کہ دونوں کو ایک ہی امت شمار کیاجائے اور مسلمانوں میں یہ طاقت نہ تھی کہ ان کے جابر آقا جس عنصر کو زبردستی ان کی امت میں ٹھونس رہے ہیں۔ ان کو اپنے سے الگ کر سکیں۔ اس صورتحال سے ایک دینی مسئلے کے علاوہ طرح طرح کے معاشرتی، معاشی اور سیاسی مسئلے بھی پیدا ہوتے چلے گئے۔ جن کی تلخی چالیس پینتالیس سال میں بڑھتے بڑھتے مسلمانوں کے لئے ایک مستقل درد سر بن گئی۔
قادیانیوں اورعام مسلمانوں کو نئی نبوت کی جس چھری نے ایک دوسرے سے کاٹا تھا۔ وہ سینکڑوں اورہزاروں خاندانوں کو اس طرح کاٹتی چلی گئی کہ بھائی بھائی سے، باپ بیٹے سے ، شوہر بیوی سے کٹ کر الگ ہوگئے اوران کے درمیان توارث، مناکحت، معاشرتی میل جول حتیٰ