کل کی بہ نسبت آج کوئی فرق نہیں آیا ہے۔ فرق اگر ہے تو بس یہ کہ اجنبی حکمرانوں کے لئے یہ روش فطری تھی اورقومی حکمرانوں کے لئے بالکل غیرفطری۔ باہروالے مجبوراً ایسے تھے۔ مگر گھر والوں نے سراسر مصنوعی طور پر اپنے آپ کو ایسا بنالیا ہے۔
اس کی افسوسناک مثالیں آئے روز سامنے آتی رہتی ہیں اور اسی کی ایک تازہ مثال وہ طرز عمل ہے جو قادیانیوں کے معاملے میں ہمارے حکمرانوں سے ظہور میں آرہا ہے۔ کراچی اور پنجاب میں حکومت نے جو رویہ اس معاملے میں اختیار کیا ہے اور اب حکمران گروہ جس نظریے سے اس پورے قضیے کو دیکھ رہا ہے۔ اس سے ہمارا یہ اندازہ ہے کہ ان لوگوں کو قادیانیت اور قادیانیوں کے بارے میں نہ تو مسلمانوں کے عام جذبات کا علم ہے اور نہ یہ ان گہرے بنیادی اسباب سے کوئی واقفیت رکھتے ہیں جو ان جذبات کی تہ میں کار فرما ہیں۔ انہوں نے بالکل اجنبی حکمرانوں کی طرح محض سطح پر چیزیں دیکھ کر سارے معاملے کے متعلق کچھ قیاسات قائم کئے ہیں اور سراسر غلط اندازوں پر ایسی کارروائیاں کر رہے ہیں۔ جن سے سخت اندیشہ ہے کہ معاملہ سلجھنے کے بجائے اور زیادہ بگڑتا چلا جائے گا۔
اولین چیز جس سے کسی مسلمان کو ناواقف نہ ہونا چاہئے تھا۔ یہ ہے کہ قادیانیت ایک ایسے مسئلے میں مسلمانوں کے بنیادی عقائد سے متصادم ہوتی ہے جو قرآن، حدیث اورپوری امت کے تیرہ سو سال کے اجماع سے ثابت ہے اور جس کے معاملے میں مسلمانوں نے اپنی پچھلی تاریخ میں آج تک کسی انحراف کو برداشت نہیں کیاہے۔
قرن اوّل سے تمام مسلمان آج تک اس بات پر متفق رہے ہیں کہ محمدﷺ آخری نبی ہیں۔ان پر سلسلہ نبوت ختم ہوچکا ہے اور ان کے بعد کوئی نبی آنے والا نہیں ہے۔ مسلمانوں کی پوری تاریخ گواہ ہے کہ انہوں نے اپنے درمیان کسی نئی نبوت کے دعوے کو کبھی نہیں چلنے دیا اور جہاں کہیں اس فتنے نے سر اٹھایا ۔سارے مسلمانوں نے بالاتفاق اس کا سر کچل دیا۔ مگر ہندوستان میں مسلمان پچاس برس تک اس کڑوے گھونٹ کو صرف اس مجبوری سے نگلتے رہے کہ یہاں ایک غیر مسلم حکومت ان پرمسلط تھی۔ جس کا آئین کسی نئی نبوت کے دعوے میں مانع نہ تھا۔
اس بات سے بھی کوئی مسلمان ناواقف نہیں رہ سکتا کہ ایک دعوائے نبوت پیش ہو جانے کے بعد یہ ممکن نہیں رہتا کہ اس کے بارے میں غیر جانبداری یا تغافل کی روش اختیار کی