M
پاکستان و ہندوستان کی تشکیل سے پہلے جب انگریز یہاں حکومت کرتے تھے۔ اس وقت باشندگان ملک حکمران گروہ کے لئے اجنبی تھے اورحکمران گروہ باشندگان ملک سے بیگانہ تھا۔ ان کے لئے ایک دوسرے کی نفسیات اورجذبات و احساسات کو سمجھنا مشکل تھا۔ حکمران عام باشندوں سے الگ اپنی کوٹھیوں اور کلبوں کی دنیا میں رہتے تھے۔ ان کے پاس ملک کے حالات کو جاننے کا کوئی ذریعہ سی آئی ڈی کی رپورٹوں اورپایونیز اوراسٹیٹسمین جیسے اخباروں کے سوانہ تھا۔
ان دونوں ذرائع سے گزر کر باشندوں کے احساسات کو سمجھنے کے لئے اگر کوئی پیمانہ ان کے پاس تھا تو صرف یہ کہ کون سا مسئلہ ایساہے۔ جس پر ملک میںعام ایجی ٹیشن برپا ہوتا ہے۔ جلسے اورجلوس اورہنگامے رونما ہوتے ہیں۔ لاٹھی چارج اورفائرنگ کی نوبت آتی ہے۔ اس طر ح صرف ایک عام ہیجان ہی سے انہیں اس بات کا ثبوت ملا کرتا تھا کہ فلاں مطالبے کے پیچھے عوام کی بہت بڑی تعداد ہے اوراسی بنیاد پر نہ کہ مطالبے کے نفس مضمون اور ان کی صحت و معقولیت کی بنیاد پر وہ اسے وزن دیاکرتے تھے۔
پاکستان قائم ہونے کے بعد جب حکومت کا انتظام ہماری اپنی قوم کے افراد کو سونپا گیا تو ہمیں بجا طور پر یہ توقع تھی کہ ان حکمرانوں کی روش سابق حکمرانوں کی روش سے مختلف ہو گی۔ وہ اپنی قوم کے جذبات و احساسات کو براہ راست خود سمجھیں گے اورمحسوس کریںگے۔ اس کے مطالبات کو ایجی ٹیشن کے پیمانے سے نہیں بلکہ ان کی عقلی، علمی اور نفسیاتی بنیادوں کے لحاظ سے پڑھیں گے۔ جو بات صحیح ہو گی۔ اسے خود مانیں گے خواہ اس کی پشت پر کوئی ایجی ٹیشن ہو یا نہ ہو اور اپنی قوم کے مزاج کے خلاف کوئی چیز طاقت کے بل پر ٹھونسنے کی کوشش نہ کریںگے۔ مگر بڑے درد کے ساتھ ہم یہ محسوس کرتے ہیں کہ آج ہمارے اپنے بھائی بھی حکومت کی کرسیوں پر بیٹھ کر وہی روش اختیار کر رہے ہیں جو کل اجنبی حکمرانوں نے اختیار کر رکھی تھی۔ وہی ملک کے باشندوں سے الگ تھلک رہنا، وہی سی آئی ڈی کی رپورٹوں اورڈان اور سول جیسے اخباروں پر معلومات کاانحصار، وہی مطالبات کو ان کی ذاتی قدر کی بجائے ایجی ٹیشن کے پیمانوں سے ماپنا اور وہی قوم کے خلاف مزاج چیزوں کو اس کے حلق سے زبردستی اتروانے کی کوششیں۔ ان حرکات میں سے کسی میں بھی