اور غالباً یہ سوچا ہو کہ مجددیت، مہدویت، مسیحیت، نبوت ورسالت یہ تمام مراتب خدائی مرتبہ سے کم ہیں۔ ان مراتب میں تو محکوم ہی ہونا پڑے گا جو مرزا قادیانی جیسے شخص کے واسطے باعث اہانت ہیں۔ آخر اس مرتبے کو کیوں نہ اختیار کیا جائے۔ جو سب سے برتر واعلیٰ ہے یعنی الوہیت اور اس میں انہیں خوف بھی کیاتھا۔ لحاظ اور خوف دو چیزوں کا ہوتا ہے۔ دنیا میں قوم اور حکومت کا۔ آخرت میں خدا کا۔
اوّل الذکر میں تو حکومت کا تو اس سے تعلق نہیں۔ قوم میں ایک تو بڑی جماعت ہے سو ان میں مرزا قادیانی خود بھی جانتے ہیں کہ جیسا ان کا مرزا قادیانی کی طرف خیال تھا۔ رہا چھوٹا گروہ شاذہ تو ان کے سامنے نعوذ باﷲ الوہیت سے کوئی مرتبہ اوپر مانا جائے تو وہ لوگ آمنا وصدقنا کے نعرے بلند کردیں گے۔ رہا خدا کا خوف اس کی بابت مرزا قادیانی کا الہام کہ: اعملوا ما شئتم فقد غفرت لکم ما تقدم من ذنبک وما تاخر۔ تو جو چاہے کر ہم نے تیرے اگلے پچھلے گناہ معاف کردئیے۔ (البشریٰ ص۹۱،تذکرہ ص۵۱۱، ص۱۰۷، طبع سوئم)
بس اب مرزا قادیانی کی کون سی بات مانع رہی بے دھڑک دعویٰ کر بیٹھے کہ میں نے یقین کرلیا کہ میں اللہ ہوں:
سال اول شیخ بودم سال دویم خاں شدم
غلہ چوں ارزاں شود امسال سید میشوم
ہم اس کی بابت ان کی اصل عبارت نقل کردیتے ہیں۔ البشریٰ میں اردو عبارت بہت طول کے ساتھ نقل کی گئی ہے۔ مولانا ثناء اللہ صاحب فاتح قادیان نے جو عبارت آئینہ کمالات اسلام سے نقل کی ہے وہ مختصر ہے۔ لہٰذا اس کو ناظرین کے سامنے پیش کیا جاتا ہے۔ (رایتنی فی المنام عین اﷲ وتیقنت اننی ہو… ثم خلقت السماء الدنیا والارض وقلت انا زینا السماء الدنیا بمصابیح)
(میں نے نیندمیں اپنے آپ کو ہو بہو اللہ دیکھا اور میں نے یقین کرلیا کہ میں وہی اللہ ہوں پھر میں نے آسمان وزمین بنائے اور میں نے کہا کہ ہم نے آسمان کو ستاروں کے ساتھ سجایا۔ (ہم بھی مرزا قادیانی کا بنایا ہوا آسمان وزمین دیکھتے تو خواب والہام کی تصدیق ہوتی ورنہ خواب والہام جھوٹے ہیں) ( آئینہ کمالات اسلام ص۵۶۴، خزائن ج۵ ص۵۶۴)